1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا پاکستان کو ایران سے کسی تعاون کی امید رکھنی چاہیے؟

عبدالستار، اسلام آباد
12 مئی 2020

جنرل قمر باجوہ نے ایرانی میجر جنرل محمد حسین بغیری سے ٹیلیفونک رابطہ کیا ہے، جس میں پاکستانی فوجیوں پر ایک حالیہ حملہ کا موضوع بھی زیر گفتگو آیا اور دونوں فوجی سربراہوں نے باڈر سکیورٹی کو موثر بنانے پر بھی بات چیت کی۔

https://p.dw.com/p/3c7So
Qamar Javed Bajwa
تصویر: ILNA/K. Mohebian

پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کے ایرانی فوج کے کمانڈر میجر جنرل محمد حسین بغیری کے رابطے کے بعد ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث چھڑ گئی ہے کہ آیا دونوں ممالک کے درمیان دہشت گردی کے حوالے سے تعاون ہو پائے گا یا نہیں۔

یہ رابطہ ایک ایسے وقت میں ہوا ہے، جب پاکستان میں تاثر زور پکڑتا جا رہا ہے کہ فوج پر حملہ کرنے والے بلوچ علیحدگی پسند ایرانی سرحدی حدود میں جا کر پناہ لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ ماضی میں تہران کو پاکستان سے یہ شکایت رہی ہے کہ وہ جند اللہ اور جیش العدل جیسی ایران مخالف تنظیموں کے خلاف اقدامات نہیں کرتا جس کے جنگجو پاکستان کے سرحدی علاقوں میں مبینہ طور پر چھپے ہوئے ہیں۔

Iran Generalmajor Dr. Mohammad Bagheri
تصویر: ispr.gov.pk

پاکستان میں کئی دفاعی تجزیہ کاروں کا شکوہ یہ ہے کہ ایران نے چاہ بہار میں بھارت کو رسائی دے کر پاکستان کے لیے مشکلات پیدا کی ہیں۔ معروف دفاعی تجزیہ نگار جنرل(ر) امجد شعیب کا کہنا ہے کہ ایران کو باڈر سکیورٹی کے لیے موثر اقدامات کرنے چاہیے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''میرے خیال میں ایران میں پاکستان مخالف کیمپ ہیں، جہاں بلوچ عسکریت پسند چھپے ہوئے ہیں۔ اس کا کوئی ثبوت نہیں کہ ایران ان کیمپوں کو چلا رہا ہے یا عسکریت پسندوں کی مدد کر رہا ہے لیکن ان عسکریت پسندوں کے خلاف اتنی سرگرمی سے کارروائی نہیں کی جا رہی، جتنی سرگرمی سے کارروائی جند اللہ یا جیش العدل کے خلاف کی گئی۔ تو پاکستان کی یہ خواہش ہے کہ ایسے عناصر کے خلاف بھر پور کارروائی کی جائے۔‘‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ چاہ بہار سے بھارت پاکستان کے خلاف سازشیں کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پاک ایران سرحد پر بھی موثر نگرانی کی ضرورت ہے تاکہ دونوں ممالک کے تعلقات میں مزید بہتری آئے۔

بلوچستان کے امور پر گہری نظر رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی  کے رہنما آیت اللہ درانی کے خیال میں  آرمی چیف کی اس کال کے بعد پاکستان اور ایران کے درمیان تعاون بڑھ سکتا ہے، ’’یہ کہا جاتا ہے کہ کشمیر کی وجہ سے پاکستان کے بھارت سے تعلقات بہترنہیں ہیں جب کہ افغانستان سے جہادی اور طالبان والا مسئلہ ہے۔ لیکن ایران کے ساتھ ایسی کوئی بھی چیز نہیں ہے۔ تو ہمارے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں اور مجھے امید ہے کہ دونوں فوجی سربراہوں کی گفتگو کے بعد ان یں یقینا بہتری آئے گی۔‘‘

تاہم بلوچستان کے سابق وزیر اطلاعات و ترجمان جان محمد بلیدی کے خیال میں جب تک پاکستان اپنی خارجہ پالیسی اپنے مفادات کو پیش نظر رکھ کر نہیں بنائے گا اس وقت تک تہران کے ساتھ مسائل حل نہیں ہوں گے اور کوئی تعاون نہیں ملے گا۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہم ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو سعودی تناظر میں دیکھتے ہیں اور امریکی مفادات کو بھی پیش نظر رکھتے ہیں۔ خطے میں سعودی عرب اور ایران کی کشیدگی ہے جب کہ ایران اور امریکا کے بھی تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ تو ہمیں سعودیہ یا امریکا کے مفادات کو پیش نظر نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اپنے مفادات دیکھتے ہوئے پالیسی بنانی چاہیے۔‘‘

ان کا کہنا تھا کہ ایران ہمارے ساتھ معاملات ٹھیک کرنے کے لیے تیار ہے،''لیکن جب تک ہم سعودی اور امریکی حلقہ اثر میں ہیں، یہ تعلقات بہتر نہیں ہو سکتے۔ لہذا ہمیں اس اثر سے نکلنا چاہیے۔‘‘

پاکستان ایران سرحد پر تیل کی خطرناک اسمگلنگ

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں