1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا سچن پائلٹ اور کانگریس میں اب بھی کوئی سمجھوتہ ممکن ہے؟

صلاح الدین زین
15 جولائی 2020

ریاست راجستھان کے سابق نائب وزير اعلی سچن پائلٹ نے بی جے پی میں شامل ہونے کی سختی سے تردید کی ہے جبکہ کانگریس پارٹی کا کہنا ہے کہ پائلٹ کے لیے دروازے ابھی بند نہیں کیے گئے ہیں۔

https://p.dw.com/p/3fLp6
Indien Rajasthan Sachin Pilot
تصویر: IANS

ایک ایسے وقت جب کانگریس پارٹی نے ریاست راجستھان کے سابق نائب وزیر اعلی سچن پائلٹ اور ان کے حامیوں کی پارٹی کے خلاف سرگرمیوں کے لیے تادیبی کارروائی کا نوٹس جاری کیا ہے، پائلٹ کے باغیانہ لہجے میں تھوڑی نرمی دیکھی گئی ہے۔ کل تک انہوں نے راہول گاندھی سے ملاقات کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا تاہم اب ایسا لگتا ہے کہ اپنے مشن میں ناکامی کےبعد وہ گاندھی خاندان سے خاص توجہ کے طالب ہیں۔

بدھ کے روز انہوں نے ایک بیان میں کہا، "میں اب بھی گانگریس کا آدمی ہوں۔ راجستھان میں ہم نے بی جے پی کو شکست دینے کے لیے سخت محنت کی اور کانکریس کو اقتدار میں لائے۔ بی جے پی میں شامل ہونے سے متعلق خبریں مجھے گاندھی خاندان کے سامنے بدنام کرنے کے لیے کی جا رہی ہیں۔"

اطلاعات ہیں کہ چونکہ سچن پائلٹ نے فی الوقت سیاسی بحران سے باز رہنے کے لیے بی جے پی سے بات چیت منقطع کر دی ہے اس لیے پارٹی نے بھی وسیع القلبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کے لیے پارٹی کے دروازے ابھی بند نہیں کیے گئے ہیں۔ ریاست میں پارٹی کے نئے سربراہ اویانش پانڈے کا کہنا تھا، "پائلٹ کے لیے اب بھی پارٹی کے دروازے کھلے ہیں۔"

سچن پائلٹ اور ریاست کے وزیر اعلی اشوک گہلوت کے درمیان اختلافات اتنے شدید تھے کہ پائلٹ اپنے حامی ارکان کے ساتھ دلی میں آکر براجمان ہوگئے اور اب بھی یہیں مقیم ہیں۔ ان کا دعوی تھا کہ ان  کے ساتھ پارٹی کے تقریبا 30 ایم ایل اے ہیں اور ان کی حمایت کے بغیر اشوک گہلوت حکومت  اقلیت میں ہے۔ انہوں نے اس کے لیےگہلوت کو چیلنج بھی کیا تھا۔

کہا یہ جا رہا تھا کہ یا تو وہ بی جے پی کی مدد سے نئی حکومت تشکیل دیں گے یا پھر اپنی نئی پارٹی بنانے کا اعلان کریں گے۔ کانگریس کا ابتدا سے موقف رہا ہے کہ مدھیہ پردیش کی طرح بی جے پی راجستھان کی بھی کانگریس کی حکومت کے خاتمے کے لیے جی توڑ کوششوں میں لگی ہے اور اس کے لیے وہ سینکڑوں کروڑ روپے خرچ کرنے کے لیے بھی تیار ہے۔   

ابتدا میں ایسا محسوس ہوا تھا کہ مدھیہ پردیش کی طرح ہی راجستھان کی بھی کانگریسی حکومت کا خاتمہ یقینی ہے تاہم  وقت گزرنے کے ساتھ ہی گہلوت بہت سے ارکان کو اپنی حمایت کے لیے قائل کرنے میں کامیاب رہے۔ کانگریس پارٹی نے اس بحران پر قابو پانے کے لیے پائلٹ کو بات چیت کی کئی بار دعوت دی تاہم انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ جوبا پارٹی نے تادیبی کارروائی کرتے ہوئے سچن پائلٹ کو نائب وزیر اعلی اور پارٹی صدر کے عہدے سے برخاست کرتے ہوئے ان کے حامی بعض وزار کو بھی معطل کر دیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق پائلٹ کے تقریبا  18حامی ارکان اب بھی ان کے ساتھ ہیں اور اسبملی کے اسپیکر نے پائلٹ سمیت ان کے تمام حمایوں کو نوٹس بھیجا ہے۔ اگر اسپیکر ان کے جواب سے مطمئن نہ ہو تو انہیں نہ اہل قرار دے سکتا ہے جس سے ان کی رکنیت خطرے میں پڑ جائے گي۔ اس صورت میں بہت سے ارکان کے پاس کوئی راستہ نہیں ہے اور ممکن ہے کہ کوئی سمجھوتے کی راہ تلاش کی جائے۔

خود سچن پائلٹ نے جس طرح پارٹی کے 30 ارکان  کی حمایت کا اعلان کیا تھا اس سے لگتا تھا کہ وہ ایک نئی جماعت تشکیل دیکر بی جے پی کی حمایت سے ریاست کے وزير اعلی بن جائیں گے۔ لیکن موجودہ صورت حال سے ایسا لگتا ہے کہ وہ اس میں کامیاب نہیں ہورہے ہیں۔ پہلے انہوں نے راہول گاندھی سے ملاقات کرنے سے منع کیا تھا تاہم ان کے حالیہ بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ گاندھی خاندان  کی توجہ کے طالب ہیں۔   

سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ اس موقع پر اگر سچن پائلٹ کی ملاقات سونیا گاندھی یا پھر راہول گاندھی سے ہوئی یا پھر ان رہنماؤں نے مداخلت کی تو اس بات کے قوی امکانات ہیں کانگریس کا ایک اور نوجوان رہنما ضائع ہونے سے بچ جائے گا۔ اطلاعات کے مطابق پرینکا گاندھی مسلسل پائلٹ کے ربط میں ہیں اور ان کی اس معاملے پر گہری نظر ہے۔ اگر کانگریس اس بحران پر قابو نہ پاسکی تو جس طرح جیوتی رادتیہ سندھیا نے  بی جی میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اس بات کا غالب امکان ہے کہ سچن پائلٹ ایک نئی سیاسی جماعت کا اعلان کر سکتے ہیں۔  

معروف بھارتی سیاستدان ششی تھرور کی ڈی ڈبلیو ٹی وی سے خصوصی گفتگو

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید