1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت : راجستھان میں کانگریس حکومت پر سے خطرہ ٹل گیا!

جاوید اختر، نئی دہلی
13 جولائی 2020

راجستھان میں وزیر اعلی اشوک گہلوت کی قیادت والی کانگریس حکومت کے گرجانے کا خطرہ فی الحال ٹل گیا ہے لیکن مصیبت ابھی پوری طرح ختم نہیں ہوئی ہے اورسچن پائلٹ کی ناراضگی کانگریس کو کسی بھی وقت دوبارہ مشکل میں ڈال سکتی ہے۔

https://p.dw.com/p/3fEd3
Kongress Leiter  Ashok Gehlot und  Sachin Pilot Pressekonferenz
تصویر: IANS

اشوک گہلوت نے 100سے زائد اراکین اسمبلی کی تائید کا دعوی کیا ہے، دوسری طرف سچن پائلٹ نے بھی دو درجن سے زائد اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہونے کی بات کی ہے۔

کانگریس نے دعوی کیا کہ راجستھان میں اس کی حکومت کو خطرہ لاحق نہیں ہے۔ ریاستی وزیر اعلی اشوک گہلوت اپنی رہائش گاہ پر ارکان اسمبلی کے ساتھ میٹنگ کے بعد فتح کا نشان بناتے ہوئے گھر سے باہرآئے اور کہا کہ انہیں 106 اراکین اسمبلی کی حمایت حاصل ہے۔

 لیکن سچن پائلٹ نے اس دعوے کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس اکثریت سے محروم ہوچکی ہے۔200 رکنی اسمبلی میں حکومت کے لیے کم از کم 101اراکین کی حمایت ضروری ہے۔ کانگریس نے بغاوت کے کسی ممکنہ خطرے کو ٹالنے کے لیے تمام 106 اراکین کو ایک ریزارٹ میں پہنچا دیا ہے۔

 دوسری طرف سچن پائلٹ سے مصالحت کی کوششیں بھی تیز کردی گئی ہیں۔ کانگریس پارٹی کے ترجمان اعلی رندیپ سنگھ سرجے والا نے میڈیا کے ذریعہ سچن پائلٹ سے کہا کہ ’ہم سے بات کریں۔‘  انہوں نے کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی کا یہ پیغام بھی سنایا”ہمارے دروازے کھلے ہیں۔“

Ashok Gehlot  Rajasthan
 2018 میں بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کے بعد اشوک گہلوت اورسچن پائلٹ دونوں ہی وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار تھے لیکن پارٹی نے 69 سالہ گہلوت کو اس عہدے پر بٹھا دیا۔تصویر: Imago Images

جھگڑے کی وجہ؟

گہلوت اور پائلٹ دونوں ہی راجستھان میں کانگریس پارٹی کے بڑے رہنما ہیں۔ گہلوت تین مرتبہ وزیر اعلی رہ چکے ہیں جبکہ پائلٹ مرکزی وزیر کے عہدے پر فائز ہوچکے ہیں اور گزشتہ چھ برسوں سے ریاست میں پارٹی کے صدر ہیں۔ پائلٹ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے داماد اور سابق مرکزی وزیر آنجہانی راجیش پائلٹ کے بیٹے ہیں۔

 2018 میں بی جے پی کو اقتدار سے باہر کرنے کے بعد دونوں ہی وزیر اعلی کے عہدے کے امیدوار تھے لیکن پارٹی نے 69 سالہ گہلوت کو اس عہدے پر بٹھادیا۔ اس کے بعد سے ہی دونوں رہنماوں میں ان بن شروع ہوگئی۔ پائلٹ خود وزیر اعلی بننا چاہتے تھے۔ کانگریس نے اس امید میں کہ پائلٹ ناراض نہ ہوں انہیں نائب وزیر اعلی بنادیا اس کے ساتھ ہی ریاست کے صدر کا عہدہ بھی برقرار رکھا۔ لیکن پائلٹ اپنی ناراضگی کا اظہار مسلسل کرتے رہے۔ ستمبر 2019 میں انہوں نے جب بیان دیا تھا کہ ریاست میں قانون و انتظام کی صورت حال بگڑتی جارہی ہے اور اس پر توجہ دینے کی ضرورت ہے تو اس بیان کو گہلوت پر طنز کے طور پر دیکھا گیا۔

پائلٹ کی تازہ ناراضگی ریاستی پولیس کے اسپیشل آپریشن گروپ کی طرف سے جاری کردہ ایک انکوائری نوٹس ہے۔ اس میں پائلٹ کو پوچھ گچھ کے لیے سمن بھیجا گیا تھا۔ پولیس یہ پتہ لگارہی ہے کہ آیا راجیہ سبھا الیکشن کے دوران حکومت کو غیرمستحکم کرنے کی کوشش کی گئی۔ جمعے کے روز اس معاملے میں بی جے پی کے دو لیڈروں کوگرفتار کیا گیا تھا۔ سچن پائلٹ اس سے بہت ناراض ہوئے۔

بھارتی صحافی جاوید انصاری نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سچن پائلٹ نے انہیں بتایا کہ”وہ اس طرح کی مسلسل بے عزتی برداشت نہیں کرسکتے۔ ان کے حامیوں کو بہت چوٹ پہنچی ہے اور انہیں ان کی بات سننی پڑے گی۔“

Indien Minister Kommunikation Sachin Pilot
سچن پائلٹ جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی ڈاکٹر فاروق عبداللہ کے داماد اور سابق مرکزی وزیر آنجہانی راجیش پائلٹ کے بیٹے ہیں۔تصویر: UNI

پائلٹ کا کہنا ہے کہ وہ بھارتیہ جنتا پارٹی میں شامل نہیں ہوں گے۔ لیکن ذرائع کے مطابق انہوں نے صلح کے لیے بعض شرائط رکھی ہیں جن میں کم از کم اپنے چار حامی اراکین اسمبلی کو اہم وزارتیں دینے کی مانگ شامل ہے۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ بھارت میں سیاست میں اخلاقی قدریں ڈھونڈنے سے بھی شاید مشکل سے ہی مل پائیں۔ سیاست دانوں کی نگاہ میں پیسے اور اقتدار سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔ الیکشن سے پہلے جس پارٹی کو ملک کا دشمن قرار دیتے ہیں، الیکشن جیتنے کے لیے جن حریفوں کو دنیا کی بدترین مخلوق قراردیتے ہیں، الیکشن جیتنے کے بعد اسی پارٹی میں جانے اور ان ہی حریفوں کو گلے لگانے میں ان کو کوئی قباحت محسوس نہیں ہوتی۔ پچھلے دنوں مدھیہ پردیش میں پیش آیا واقعہ اس کی ایک اور مثال ہے جب بی جے پی کے کٹر مخالف سمجھے جانے والے کانگریس کے سینئر رہنما جیوتی رادتیہ سندھیا اپنے حامیوں کے ساتھ بی جے پی میں شامل ہوگئے اورکانگریس حکومت کو اقتدار سے محروم ہونا پڑا۔

تجزیہ کاروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ بھارت کی قدیم ترین سیاسی جماعت کانگریس کو اپنے موجودہ رویے پر بھی نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اسے صرف ایک خاندان کے افراد کے ارد گرد پارٹی کو محدود رکھنے اور عمردراز رہنماوں پر تکیہ کرنے کے بجائے نئی اور نوجوان صلاحیتوں کو موقع دینا چاہیے۔

معروف بھارتی سیاستدان ششی تھرور کی ڈی ڈبلیو ٹی وی سے خصوصی گفتگو

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید