1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کواڈ کے وزرائے خارجہ کی ملاقات میں ساری توجہ چین پر

29 جولائی 2024

امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت کے وزرائے خارجہ نے پیر کے روز بیجنگ کی درپردہ سرزنش کرتے ہوئے، بحیرہ جنوبی چین کی صورتحال پر 'گہری تشویش' کا اظہار کیا۔ کواڈ گروپ نے آزاد اور کھلے بحرالکاہل کا مطالبہ کیا۔

https://p.dw.com/p/4iqj3
کواڈ کے رہنما
امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل نام نہاد کواڈ گروپ نے حالیہ برسوں میں ہند بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں کافی اہمیت حاصل کی ہے۔تصویر: Olivier Douliery/AP Photo/picture alliance

امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور بھارت پر مشتمل کواڈ گروپ نے حالیہ برسوں میں ہند بحرالکاہل میں چین کی بڑھتی ہوئی طاقت کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں کافی اہمیت حاصل کی ہے۔

اگر چین ایل اے سی کی خلاف ورزی کرتا ہے، تو روس کام نہیں آئے گا، امریکہ

 امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور کواڈ گروپ میں شامل ان کے دیگر ہم منصبوں نے پیر کے روز ٹوکیو میں مذاکرات کے بعد ایک ''آزاد اور کھلے'' بحرالکاہل کا مطالبہ کیا۔

انڈو پیسیفیک خطے کا حال یوکرین جیسا نہیں ہونے دیں گے، کواڈ رہنما

گروپ نے اپنے بیان میں براہ راست چین کا نام تو نہیں لیا، تاہم متنازعہ جنوبی بحیرہ چین میں چینی اور فلپائنی جہازوں کے درمیان حالیہ تصادم کے سلسلوں کا حوالہ دیا گیا۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے بھارت کا اہم ترین دورہ منسوخ کر دیا

گروپ کے مشترکہ بیان میں کہا گیا کہ ''ہمیں مشرقی اور جنوبی بحیرہ چین کی صورت حال پر گہری تشویش ہے اور ہم کسی بھی ایسے یکطرفہ اقدامات کے خلاف اپنی سخت مخالفت کا اعادہ کرتے ہیں، جو طاقت یا جبر کے ذریعے صورتحال کو تبدیل کرتے ہوں۔''

آسٹریلیا میں مجوزہ کواڈ اجلاس منسوخ

اس میں مزید کہا گیا کہ ''ہم متنازع علاقے میں عسکری پہلو اور جنوبی بحیرہ چین میں زبردستی اور دھمکی آمیز ہتھکنڈوں کے بارے میں اپنی شدید تشویش کا اظہار کرتے رہے ہیں۔''

جو بائیڈن دورہ جاپان کے دوران ایک نیا اقتصادی منصوبہ پیش کر سکتے ہیں

 گروپ نے شمالی کوریا کے ''غیر مستحکم'' میزائل لانچوں کی بھی مذمت کی۔

ہند بحرالکاہل میں چین کی طاقت پر قابو پانے کی کوشش

آسٹریلیا کے وزیر خارجہ پینی وونگ نے افتتاحی کلمات میں کہا کہ ''ہم سب جانتے ہیں کہ ہمارے خطے اور دنیا کو ایک نئی شکل دی جا رہی ہے۔ ہم سب یہ بھی سمجھتے ہیں کہ ہمیں دہائیوں میں اپنے خطے میں سب سے زیادہ تصادم والے حالات کا سامنا ہے۔''

بھارت اور چین: ہمسائے، حریف اور تجارتی پارٹنرز

انہوں نے مزید کہا کہ ''ہم سب خطے کے امن، استحکام اور خوشحالی کو پسند کرتے ہیں اور ہم سب جانتے ہیں کہ یہ کوئی آسان چیز نہیں ہے، ہم سب کو معلوم ہے کہ ہمیں اسے معمولی نہیں سمجھنا چاہیے۔''

امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے کہا کہ غزہ، یوکرین اور جنوبی سوڈان میں تنازعات نے سمجھ بوجھ سے بہت زیادہ عالمی توجہ حاصل کی ہے۔

دنیا حریف دھڑوں میں تقسیم ہے، لیکن بھارت مضبوط کھڑا ہے، مودی

انہوں نے مزید کہا، ''لیکن اس کے باوجود کہ ہم وہ کر رہے ہیں جو ہمیں کرنے کی ضرورت ہے، ہمیں ان تنازعات کو ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔۔۔۔۔۔ہماری نظریں اس پر ہیں اور درحقیقت ہم اس خطے پر اپنی پوری توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔''

جاپانی وزیر خارجہ یوکو کامیکاوا نے سائبر سیکیورٹی کی صلاحیتوں کو بڑھانے اور انڈو پیسیفک میں میری ٹائم سکیورٹی میں اضافہ کرنے کے لیے تربیت کے مواقع فراہم کرنے کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

ٹوکیو اور واشنگٹن چین کو بڑا 'اسٹریٹجک چیلنج' سمجھتے ہیں

اتوار کے روز ٹوکیو اور واشنگٹن کے درمیان سیکورٹی بات چیت کے بعد کواڈ گروپ کے وزارئے خارجہ میں بات چیت ہوئی ہے۔ جاپان اور امریکہ نے بات چیت کے بعد کہا تھا کہ چین خطے کو درپیش سب سے بڑا ''اسٹریٹجک چیلنج'' ہے۔

امریکہ نے اتوار کو اپنے اتحادی افواج کے ساتھ ہم آہنگی کو گہرا کرنے کے لیے جاپان میں اپنی فوجی کمان کی ایک بڑی تبدیلی کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔

بلنکن، جو تین اگست تک ایشیا کے اتحاد کو فروغ دینے کے دورے پر ہیں، نے ہفتے کے روز لاؤس میں اپنے چینی ہم منصب وانگ یی سے ملاقات کی تھی اور اس بات کا اعادہ کیا کہ واشنگٹن ایک ''آزاد اور کھلا ہند-بحرالکاہل'' برقرار رکھنا چاہتا ہے۔

ٹوکیو سے روانہ ہونے کے بعد بلنکن اور امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن فلپائن کے ساتھ سکیورٹی مذاکرات کریں گے، جو امریکا کا اتحادی ہے اور بحیرہ جنوبی چین میں ایک علاقائی تنازعہ پر چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے اختلافات کا شکار ہے۔

ص ز/ ج ا (روئٹرز، اے ایف پی)

پوٹن کا دورہ چین، سیاق و سباق کیا ہیں؟