1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کان میں حادثےکے ترک سیاست پر اثرات: تبصرہ

باہا گُنگور / مقبول ملک16 مئی 2014

ترکی میں کان کے حادثے میں سینکڑوں ہلاکتوں کے بعد پرتشدد احتجاجی مظاہرے دیکھنے آئے۔ اس دوران وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن کا عوامی سطح پر رویہ وہ نہیں تھا، جس کا تقاضا ان کا منتخب سرکاری عہدہ کرتا ہے۔

https://p.dw.com/p/1C1L7
ایردوآن کی سوما آمد کے موقع پر، سکیورٹی کمانڈوز کی گرفت میں ایک احتجاجی کارکن، وزیر اعظم کے ایک مشیر کی ٹھوکروں کی زد میںتصویر: Reuters

اس موضوع پر ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار باہا گیُنگور کا لکھا تبصرہ:

ترکی میں ایک کان کے حالیہ ہلاکت خیز حادثے کے بعد وزیر اعظم ایردوآن کئی مرتبہ عوام میں دیکھے گئے لیکن وہ خود پر اس کنٹرول سے محروم تھے جس کا مظاہرہ ایک سربراہ حکومت کو کرنا چاہیے۔ اس کے باوجود ان کی خواہش ہے کہ انہیں ترکی کا اگلا صدر منتخب کیا جائے۔

ترک وزیر اعظم کے پبلک میں نظر آنے کے حوالے سے جو بات بہت سے لوگوں کے ذہنوں میں نقش رہے گی، وہ حکومت کے ناقدین اور عوامی مظاہرین کی پٹائی کرنے والے ایردوآن کے مشیر اور باڈی گارڈ ہوں گے۔ بجائے اس کے کہ مغربی اناطولیہ کے شہر سوما میں کان کے حادثے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو تسلی دیتے ہوئے ان کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کیا جاتا اور چھان بین کے بعد سانحے کے ذمے دار عناصر کو جواب دہ بنایا جاتا، رجب طیب ایردوآن کا رویہ غیر منطقی اور نامناسب تھا۔

Türkei Grunbenunglück Protest 15.05.14
کان کے حادثے کے بعد انقرہ میں ایک بڑے عوامی مظاہرے کا ایک منظرتصویر: Reuters

ترکی میں گزشتہ دنوں کے دوران ہونے والے عوامی مظاہرے اس لیے بھی کوئی اچھا شگون نہیں ہیں کہ 28 مئی کو گیزی پارک مظاہروں کا ایک سال پورا ہونے میں دو ہفتے سے بھی کم وقت رہ گیا ہے۔ یہ مظاہرے وسطی استنبول میں تقسیم اسکوائر سے شروع ہوئے تھے جن کی وجہ ایک بہت بڑا تعمیراتی منصوبہ بنا تھا۔ حکومتی ارادوں کے برعکس ماحول پسند مظاہرین یہ چاہتے تھے کہ تعمیراتی منصوبے کے باعث تقسیم اسکوائر میں سرسبز علاقہ یا گیزی پارک متاثر نہیں ہونے چاہییں۔

ترک عوام کی ہمدردیاں سوما کے سانحے میں ہلاک ہونے والے 300 کے قریب کان کنوں کے لواحقین کے ساتھ ہیں۔ موجودہ عوامی مظاہروں اور حکومت کے خلاف غصے میں اگر سوگوار خاندانوں کے دکھ میں دیہی اور شہری علاقوں کے اور زیادہ باشندے شامل ہو گئے تو حکومت مخالف احتجاج ایک وسیع تر عوامی لہر بھی بن سکتا ہے۔ لیکن آیا واقعی ایسا ہو گا، یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی اور پھر یہ امر بھی غیر یقینی ہے کہ مظاہروں کے شرکاء پولیس کی طاقت کے سامنے کب تک ڈٹے رہ سکتے ہیں۔

دس اگست کو ہونے والے ترک صدارتی الیکشن کے پہلے مرحلے میں رجب طیب ایردوآن کی ممکنہ کامیابی پر اگر کسی کو کوئی شبہ ہو بھی تو بھی یہ بات یقینی ہے کہ 24 اگست کو ہونے والی دوسرے مرحلے کی رائے دہی میں تو وہ آسانی سے نئے سربراہ مملکت منتخب کر لیے جائیں گے۔

کئی ماہرین ایردوآن کی شام اور مصر سے متعلق سیاست کو راستے سے ہٹی ہوئی قرار دیتے ہیں۔ ان کی جس اقتصادی سیاست کی اب تک تعریف کی جاتی تھی، اس پر بھی کچھ انگلیاں اٹھنے لگی ہیں اور ترکی کے یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات میں تو انقرہ کے پاؤں کے نیچے زمین نرم پڑتی جا رہی ہے۔ ایسے میں کئی سال سے وزیر اعظم کے عہدے پر فائز ایردوآن آئندہ ملکی صدر تو بن جائیں گے لیکن ترکی کے لیے مستقبل کی صورت حال اب اتنی روشن اور شاندار نہیں رہی، جتنی ایک سال پہلے تک قرار دی جا رہی تھی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید