1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ترکی میں ہلاکت خیز حادثہ، سوگ اور احتجاج

امتیاز احمد15 مئی 2014

منہدم کوئلے کی کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کے زندہ بچ جانے کی امید ختم ہوتی جا رہی ہے۔ ہلاک کان کنوں کی تعداد بڑھ کر 274 تک پہنچ گئی ہے جبکہ ملک بھر میں حکومت مخالف مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/1C0Lm
تصویر: Reuters

انقرہ اور استنبول میں ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہرے کیے ہیں۔ مظاہرین نے حکومت اور کان کنی کی صنعت پر غفلت برتنے کا الزام عائد کیا ہے۔ دوسری جانب وزیر اعظم رجب طیب ایردوآن نے حکومت کو مجرم قرار دینے کے دعوؤں کو مسترد کیا ہے۔ وزیر اعظم کا صوبہ مانیسا کے شہر صوما میں متاثرہ کان کے دورے کے بعد کہنا تھا، ’’ ہمیں اپنی حالیہ تاریخ کے سب سے بڑے حادثے کا سامنا ہے۔‘‘ اس علاقے میں موجود متاثرین کے غمزدہ رشتہ داروں نے وزیراعظم سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا ہے۔

وزیر اعظم ایردوآن نے کہا کہ کان میں پھنسے ہوئے کارکنوں کی تعداد کے بارے میں یقین سے کچھ بھی نہیں کہا جا سکتا لیکن مقامی کان کن آپریٹرز کے مطابق 120 مزدور ابھی بھی کان میں پھنسے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب موقع پر امدادی کارروائیوں میں مصروف اہلکاروں کا کہنا ہے کہ کوئلے کی کان میں پھنسے ہوئے افراد کی تعداد ان اندازوں سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔ ایردوآن نے کہا کہ حادثے کی وجوہات جاننے کے لیے تفتیشی عمل شروع کر دیا گیا ہے لیکن ’اس طرح کے حادثات‘ ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے اس حادثے کی سنگینی کو کم کرنے کے لیے کان کنی کے دیگر حادثات کی بھی مثالیں دیں۔

احتجاج اور غصہ

جس عمارت میں وزیراعظم پریس کانفرنس کر رہے تھے، اس کے قریب ہلاک ہونے والوں اور دیگر کان کنوں کے سینکڑوں رشتہ دار اور دوست جمع تھے۔ انہوں نے نہ صرف ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا بلکہ چند ایک نے ان کی گاڑی کو بھی لاتیں ماریں۔ اس حادثے کے بعد عوامی غصے میں بھی اضافہ ہوا ہے اور ملک کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملے۔ انقرہ میں تین سے چار ہزار افراد نے حکومت مخالف مظاہرے میں شرکت کی۔ پولیس نے ان کو منتشر کرنے کے لیے آنسو گیس اور تیز دھار پانی کا استعمال کیا۔ اسی طرح استنبول میں بھی ہزاروں افراد نے حکومت مخالف مظاہرہ کیا۔ نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق اس سے پہلے اُن آٹھ سو اسٹوڈنٹس کے خلاف بھی آنسو گیس کا استعمال کیا گیا، جنہوں نے وزارت توانائی کی طرف مارچ کیا۔ اس کے علاوہ تقریباﹰ پچاس کے قریب افراد نے استنبول میں کان کنی کے تحقیقی ادارے کی عمارت پر انڈے پھینکے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق اگر حکومتی سطح پر غفلت برتنے کے الزامات سچ ثابت ہوتے ہیں تو ایردوآن حکومت کو انتہائی سیاسی دباؤ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور ایک مرتبہ پھر ملک بھر میں حکومت مخالف احتجاج کا سلسلہ شروع ہو سکتا ہے۔

’کوئی زیادہ امید نہیں‘

حادثے کے مقام پر زہریلی گیسوں اور آگ کے وجہ سے تقریباﹰ چار سو امدادی کارکنوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ ترک وزیر توانائی تانر یلدز نے 274 ورکروں کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے اور کہا ہے کہ آگ کی وجہ سے امدادی کارروائیوں میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ ان کہنا تھا کہ وقت ہمارے حق میں نہیں جا رہا اور ابھی تک 196 لاشیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دی گئی ہیں۔ قبل ازیں کہا گیا تھا کہ حادثے کے وقت کوئلے کی کان میں تقریباﹰ 787 کارکن موجود تھے۔ بدھ کو رات گئے بتایا گیا کہ تقریباﹰ 450 مزدوروں کو کان سے باہر نکال لیا گیا ہے۔ آزاد ذرائع کے مطابق فی الحال ان اعداد و شمار کو حتمی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ ہلاکتوں کے بارے میں صیح اندازے لگانے میں ابھی کچھ وقت لگے گا۔

غم اور سوگ

اس حادثے پر ترک حکومت نے سہہ روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب ہلاک ہونے والوں کی تدفین کا سلسلہ جاری ہے۔ اس موقع پر انتہائی جذباتی اور رقت آمیز مناظر دیکھنے کو ملے۔ اس سے قبل ترکی کی کان کنی کی صنعت میں بدترین حادثہ 1992ء میں پیش آیا تھا۔ اس وقت 263 مزدور ہلاک ہوئے تھے۔ دریں اثناء ، فرانس، جرمنی، یورپی یونین اور امریکا نے ترکی کے ساتھ تعزیت کرتے ہوئے مدد کی پیش کش کی ہے۔ صوما کا علاقے کو لگنائٹ کوئلے کی کان کنی کے لیے ایک اہم مرکز سمجھا جاتا ہے اور یہ استنبول سے تقریبا 250 کلومیٹر جنوب میں واقع ہے۔