چرن جیت سنگھ کی آخری رسومات ادا کردی گئیں
30 مئی 2018پاکستان کونسل آف ورلڈ ریلجنز فیتھ کے بانی رکن باون سالہ سماجی کارکن چرن جیت سنگھ کی آخری رسومات بدھ کے دن پشاور کے قدیمی گردوارے بھائی جوگا سنگھ میں ادا کی گئیں، جس کے بعد ان کی میت ان کے آبائی علاقے خیرآباد اٹک روانہ کر دی گئی۔ چرن جیت سنگھ کو منگل کے دن پشاور میں کوہاٹ روڈ پر موٹر سائیکل پر سوار نامعلوم افراد نے فائرنگ کا نشانہ بنایا، جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہلاک ہوگئے تھے۔ حملہ آور اس کارروائی کے بعد فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے تھے۔
گردوارں میں سرکاری اہلکاروں کے داخلے پر پابندی درست، اکال تخت
پاکستان اور بھارت کی درسی کتب میں ’تقسیم ہند کی جنگ‘
سردار سورن سنگھ کی آخری رسومات ادا کر دی گئیں
پشاور پولیس کے اعلیٰ افسر ملک احمد خان کے مطابق، ’’یہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ کا معلوم ہوتا ہے۔ گولی چلانے والا پیدل آیا اور گولی چلانے کے بعد فرار ہوگیا۔‘‘ ادھر انسپکٹر جنرل پولیس صلاح الدین محسود نے اس سکھ رہنما کے قتل کا نوٹس لیتے ہوئے ایک ہفتے کے اندر اندر ملوث افراد کو گرفتار کرنے کی ہدایت جاری کر دی ہے۔ اعلیٰ پولیس اہلکار نثار احمد خان کی سربراہی میں سات رُکنی کمیٹی تشکیل دی گئی، جو ہر زاویے سے چرن جیت سنگھ کی قتل کی تحقیقات کرے گی۔
دوسری طرف سکھ برادی پولیس اور صوبائی حکومت کی جانب سے سکھوں کو تحفظ فراہم کرنے کے حوالے سے مطمئن نہیں ہے۔ گزشتہ کچھ سالوں کے دوران خیبر پختونخوا میں متعدد سکھ افراد کو اسی طرح ہلاک کیا جا چکا ہے۔ سکھ کمیونٹی آف پاکستان کے چیئر مین رادیش سنگھ ٹونی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’چرن جیت سنگھ نے نہ صرف سکھوں کے لیے آواز اٹھائی بلکہ انہوں نے تو ہندو اور مسلمانوں کے حقوق اور جان و مال کی تحفظ کے لیے بھی ہر فورم پر آواز اٹھائی۔ چرن جیت کے قتل پر جہاں سکھ برادری غم زدہ ہے وہاں مسلمان اور ہندو بھی ان کے غم میں برابر کے شریک ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخو ا حکومت اور پولیس سکھوں کو جان و مال کا تحفظ فراہم کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہے۔
سماجی کارکن اور مذہبی ہم آہنگی کے لیے کام کرنے والے چرن جیت سنگھ کے آباؤ اجداد کا تعلق کرم ایجنسی سے تھا، جو کچھ عرصہ قبل ہی پشاور منتقل ہوئے تھے۔ چرن جیت کے قتل پر تبصرہ کرتے ہوئے سماجی و سیاسی کارکن جیتندر سنگھ کا کہنا ہے، ’’چرن جیت سنگھ ایک پر امن شہری تھے۔ انہوں بیرون اور اندروں ملک خیبر پختونخوا کی ساکھ کو بہتر بنانے میں موثر کردار ادا کیا۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ ایک امن پسند شہری تھے، سکھ برادری کے علاوہ مسلمان، ہندو اور کرسچن برادری کے لیے بھی ان کی خدمات کسی سے پوشید نہیں ہیں۔ ان کی کسی سے دشمنی نہیں تھی اور نہ ہی کسی نے انہیں کسی قسم کی دھمکی دی تھی۔‘‘
چرن جیت سنگھ نے خیبر پختونخوا میں اقلیتوں کے حوالے سے بننے والے قوانین میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس سلسلے میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا کے مشیر روی کمار نے ڈوئچے ویلے سےگفتگو میں کہا، ’’خیبر پختونخوا میں اقلیتی برادری سکیورٹی کی موجودہ صورتحال سے مطمئن ہے۔ چرن جیت سنگھ ایک گردوارے میں ڈسپنسری بنانے کے لیے کوشاں تھے، جو ہم نے وزیر اعلیٰ سے منظور کروائی۔ اسی طرح صوبائی حکومت نے دیگر مذاہب کے رہنماؤں کے لیے ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا اور سکھ برادری کے لیے اس میں چرن جیت سنگھ نے اہم کردار ادا کیا۔ ان کا مزید کہنا تھاکہ کبھی بھی سکیورٹی کے حوالے سے یا کسی کی جانب سے دھمکی وغیرہ کا ذکر نہیں کیا گیا۔ وہ ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ کمیونٹی کے لیے بلا تفریق اور ہنگامی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔‘‘
گزشتہ پانچ سالوں میں خیبر پختونخوا میں سکھ برادری سے تعلق رکھنے والے دس سیاسی اور سماجی کارکن قتل کیے جا چکے ہیں لیکن پولیس قاتلوں کو کیفرکردار تک پہنچانے میں ناکام رہی ہے۔ سکھ برادی کے چرن جیت کے قتل پر مسیحی برادری بھی غمزدہ ہے۔
سیاسی وسماجی کارکن سیلاس گل نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’صوبائی حکومت اور پختونخوا پولیس اقلیتی برادری کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ پورے صوبے میں سکھ ، ہندو اور مسیحی کمیونٹی کے متعدد افراد کو قتل کیا جا چکا ہے۔ ان کی عبادت گاہوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا لیکن حکومتی ادارے کسی کوگرفتار کرنے اور انصاف کے کٹہرے میں لانے میں ناکام رہے ہیں۔‘‘
آل پاکستان ہندو رائٹس موومنٹس کے چیئر مین ارون سرب دیال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’چرن جیت کسی ایک مذہب کے لوگوں کے لیے نہیں بلکہ سب کے لیے کام کرتے رہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ وہ حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کہ ان کے قتل میں ملوث افراد کو گرفتار کرکے سزا دلائی جائے۔‘‘