1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پچاس کروڑ سال پرانی آبی مخلوق کے حیران کن فوسلز کی دریافت

28 جون 2024

سائنس دانوں نے پچاس کروڑ سال پرانی اور اب ناپید ہو چکی ایک سمندری مخلوق کی حیران کن حد تک اچھی حالت میں محفوظ جسمانی باقیات تلاش کر لی ہیں۔ ماہرین کے بقول ان فوسلز کی حالت ایسی ہے کہ جیسے یہ جاندار ابھی کل تک زندہ تھا۔

https://p.dw.com/p/4he9B
ٹریلوبائٹس، زمین کے سمندروں میں یہ قدیمی آبی مخلوق پانچ سو ملین سال پہلے بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی تھی
ٹریلوبائٹس، زمین کے سمندروں میں یہ قدیمی آبی مخلوق پانچ سو ملین سال پہلے بہت زیادہ تعداد میں پائی جاتی تھیتصویر: Alan Gishlick

برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق قدرتی طور پر ''انتہائی شاندار اور ناقابل یقین حد تک اچھی حالت میں محفوظ‘‘ یہ قدیمی جسمانی باقیات جن جانوروں کی ہیں، وہ ٹریلوبائٹس (trilobites) کہلاتے تھے اور ان کی کئی انواع اور ضمنی انواع ہوتی تھیں۔

کیا پیڑ ہمارے رشتہ دار ہیں؟

محققین کے مطابق اس قسم کے جانور زمین کے سمندروں میں تقریباﹰ 50 کروڑ (500 ملین) سال پہلے بہت بڑی تعداد میں زندہ تھے۔ پھر حیاتیاتی ارتقا اور تغیر کے عمل کے دوران وہ ناپید ہو گئے اور اب اس بات کو بھی کروڑوں برس گزر چکے ہیں۔

تاہم حیران کن بات یہ ہے کہ سائنس دانوں کو اب ٹریلوبائٹ نسل کے جن آبی جانداروں کے فوسلز ملے ہیں، وہ ایسی حالت میں ہیں کہ لگتا ہے کہ جیسے یہ جاندار شاید ابھی کل تک زندہ تھے۔

قدیمی سمندری جانداروں کے گروپ ٹریلوبائٹس کے ایک قسم آکاڈوپیراڈوکسیڈیس برای ایریئس کے فوسلز
قدیمی سمندری جانداروں کے گروپ ٹریلوبائٹس کے ایک قسم آکاڈوپیراڈوکسیڈیس برای ایریئس کے فوسلزتصویر: Paolo Gallo/Zoonar/picture alliance

ٹریلوبائٹس کی معدومیت کی وجہ کیا بنی؟

برطانوی دارالحکومت لندن میں قائم نیچرل ہسٹری میوزیم کے ناپید ہو چکی قدیمی حیاتیات کے ماہر ڈاکٹر گریگ ایج کومب کے مطابق کروڑوں برس پہلے ٹریلوبائٹس کا وجود اس وجہ سے ختم ہو گیا تھا کہ وہ ایک بہت بڑے آتش فشانی دھماکے کے نتیجے میں پھیلنے ہونے والی راکھ میں پوری طرح دب گئے تھے۔

زیمبیا میں لکڑی کے بنے دنیا کے قدیم ترین ڈھانچے کی دریافت

لیکن اس وجہ سے ان جانداروں کی جسمانی بافتیں اور دیگر اعضا قدرتی طور پر مگر اتنی اچھی طرح محفوظ ہو گئے کہ یہ امر سائنسی محققین کو انتہائی حیران کر دیتا ہے۔

ڈاکٹر گریگ ایج کومب نے بتایا، ''میں نے تقریباﹰ 40 برس تک ٹریلوبائٹس کا سائنسی تحقیقی مطالعہ کیا ہے، لیکن مجھے آج سے پہلے کبھی یہ احساس نہیں ہوا تھا کہ جیسے میں کسی زندہ ٹریلوبائٹ کا مشاہدہ کر رہا ہوں۔‘‘

نئے ٹریلوبائٹس مراکش کے ایک پہاڑی سلسلے سے ملے

قدیمی حیاتیات کے ماہرین کو ٹریلوبائٹس کے نئے نمونے مراکش میں ہائی اٹلس نامی پہاڑی سلسلے سے ملے ہیں اور ان کی اوسط جسامت 10 ملی میٹر سے لے کر 26 ملی میٹر تک بنتی ہے۔ بہت چھوٹی سی جسامت والے ان قدیمی جانداروں کو محققین نے عرف عام میں ''پومپئی ٹریلوبائٹس‘‘ (Pompei trilobites) کا نام دیا ہے۔

انہیں یہ نام دیے جانے کا سبب یہ ہے کہ ان سمندری جانوروں کا وجود بھی تقریباﹰ اسی طرح ختم ہوا تھا، جیسے زمانہ قدیم میں پومپئی کے رہائشی تمام انسان اس وقت ہلاک ہو گئے تھے جب وَیسُوویئس (Vesuvius) نامی پہاڑ سے بہت زیادہ آتش فشانی ہوئی تھی۔

نظریہ ارتقا کے بارے میں پائے جانے والے چند عام مغالطے

ان قدیمی جانداروں کی جسمانی باقیات کے کمپیوٹر اسکین سے انکشاف ہوا ہے کہ ان کے جسموں کے کئی حصے حتیٰ کہ ان میں نظام ہضم بھی اب تک بہت اچھی حالت میں محفوظ ہیں۔ اس کے علاوہ ان ٹریلوبائٹس کے جسموں کی بیرونی سطح پر بنے ہوئے قدرتی خول یا lamp shells بھی ابھی تک ان کے جسموں سے ایسی گوشت والی ڈنڈیوں کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں، جیسے وہ ان جانداروں کی زندگی میں ہوا کرتے تھے۔

سب سے زیادہ زیر مطالعہ رہنے والے بحری حیاتیاتی فوسلز

ٹریلوبائٹس کی خاص بات یہ ہے کہ قدیمی حیاتیات کے ماہرین نے آج تک جانداروں کی کسی دوسری قسم کا اتنا وسیع مطالعہ نہیں کیا، جتنا کہ ایسے بحری حیاتیاتی فوسلز کا۔ سائنسی ماہرین ٹریلوبائٹس کی گزشتہ 200 برسوں میں 20 ہزار سے زائد انواع کی شناخت کر چکے ہیں۔

ہم بوڑھے کیوں ہو جاتے ہیں اور اس کا ارتقا سے کیا تعلق ہے؟

ڈاکٹر ایج کومب کے الفاظ میں، ''ٹریلوبائٹس کا سائنسی مطالعہ اس لیے انتہائی اہمیت کا حامل اور بیش قیمت سائنسی تحقیقی عمل ہے کہ یوں ماہرین کو ایسی بہت وسیع اور متنوع معلومات تک رسائی حاصل ہو جاتی ہے، جن کی مدد سے یہ بہتر طور پر سمجھا جا سکے کہ اب ناپید ہو چکی حیاتیانی انواع ماضی میں کس طرح کی ارتقائی تاریخ سے گزری تھیں۔‘‘

برطانیہ میں برسٹل یونیورسٹی کے قدیمی حیاتیات کے ماہر ہیری بیرکس کہتے ہیں، ''ان ٹریلوبائٹس کی ریسرچ اسٹڈی سے ناقابل یقین حد تک واضح تفصیلات ملی ہیں، مثلاﹰ یہ بھی کہ 500 ملین سال پہلے ایسے سمندری جاندار کس طرح کی خوراک کیسے کھاتے تھے۔‘‘

م م / ع ا (ڈی پی اے)