1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور کے قریب خود کش حملے میں آٹھ ہلاکتیں

عصمت جبیں14 مارچ 2014

پاکستانی صوبہ خیبر پختونخوا کے دارالحکومت پشاور کے نواح میں آج جمعے کے روز قبائلی علاقے کی سرحد کے قریب پولیس کی ایک بکتر بند گاڑی کے پاس کیے گئے ایک خود کش حملے میں حملہ آور سمیت کم از کم آٹھ افراد ہلاک ہو گئے۔

https://p.dw.com/p/1BPm8
تصویر: picture-alliance/AP

پشاور سے ملنے والی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹوں کے مطابق پولیس کے اعلیٰ افسر محمد فیصل نے بتایا کہ پشاور سے قریب بیس کلو میٹر کے فاصلے پر کیے گئے اس بم حملے میں پینتالیس افراد زخمی بھی ہوئے۔ مرنے والے تمام افراد عام شہری بتائے گئے ہیں جبکہ بیسیوں زخمیوں میں کئی پولیس اہلکار بھی شامل ہیں۔

قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں باڑہ سے کچھ ہی دورایک بازار میں کیے گئے اس خود کش بم حملے کے نتیجے میں کئی قریبی عمارتوں کو بھی نقصان پہنچا۔ تاحال کسی گروپ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول نہیں کی۔ یہ حملہ ایسے وقت پر کیا گیا ہے جب پاکستانی حکومت کے ساتھ مذاکرات کے لیے طالبان کی مذاکراتی کمیٹی کے اراکین عسکریت پسندوں کی قیادت کے ساتھ مشوروں کے لیے شمالی وزیرستان میں ہیں۔ ان مذاکرات کے آغاز سے اب تک پاکستان کے مختلف علاقوں میں عسکریت پسندوں کی طرف سے کئی ہلاکت خیز حملے کیے جا چکے ہیں۔

Pakistan Anschlag auf ein Kino in Peschawar
پاکستان میں طالبان کی مسلح تحریک کے دوران گزشتہ سات برسوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیںتصویر: Reuters

پاکستان میں طالبان کی مسلح تحریک کے دوران گزشتہ سات برسوں میں اب تک ہزاروں افراد مارے جا چکے ہیں۔ اس خونریزی کے خاتمے کے لیے وزیر اعظم نواز شریف کی حکومت نے طالبان کے مذاکراتی نمائندوں کے ساتھ جو مکالمت شروع کی ہے، وہ ابھی گزشتہ ہفتے ہی بحال ہوئی تھی۔ اس موقع پرحکومتی مذاکراتی نمائندوں نے کہا تھا کہ مذاکراتی عمل ایک نئے مرحلے میں داخل ہونے والا ہے۔

پاکستانی طالبان کے سب سے بڑے گروپ تحریک طالبان پاکستان (TTP) کی طرف سے اس بات کی تردید کی جاتی ہے کہ اسلام آباد حکومت کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے بعد سے اس تحریک کے عسکریت پسندوں نے کوئی مسلح حملے کیے ہیں۔ آج کیے جانے والے خود کش بم حملے کے بارے میں نجیب الرحمان نامی سینئر پولیس اہلکار نے اے ایف پی کو بتایا کہ اس واقعے میں حملہ کرنے والا عسکریت پسند پیدل تھا، جس نے سربند نامی گاؤں میں پولیس کی بکتر بند گاڑی کے قریب پہنچ کر خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔

Pakistan Peschawar 29.09.2013 Autobombe Anschlag
پشاور سے قریب بیس کلو میٹر کے فاصلے پر کیے گئے اس بم حملے میں پینتالیس افراد زخمی بھی ہوئےتصویر: Reuters

اے ایف پی کے اعداد و شمار کے مطابق اسلام آباد کی لال مسجد میں مورچہ بند عسکریت پسندوں کے خلاف 2007ء میں کیے جانے والے فوجی آپریشن اور پھر تحریک طالبان پاکستان کے قیام کے بعد سے ملک میں عسکریت پسندوں کے خونریز حملوں میں اب تک قریب سات ہزار انسانی ہلاکتیں ہو چکی ہیں۔

جنوری کے آخر میں وزیر اعظم نواز شریف نے طالبان کے ساتھ مکالمت کا جو اعلان کیا تھا، اس کے بعد سے اب تک مختلف علاقوں میں عسکریت پسندانہ کارروائیوں اور بم دھماکوں میں بھی 120 سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے آج جمعے کے روز وفاقی وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے کہا کہ مذاکرات حکومت کے لیے ترجیحی راستہ ہیں لیکن اگر یہ مکالمت کامیاب نہ رہی تو حکومت فوجی آپریشن کا راستہ اپنانے میں دیر نہیں کرے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں