1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: ملا برادر کو رہا کرنے کا فیصلہ

امتیاز احمد11 ستمبر 2013

پاکستان نے کہا ہے کہ جلد ہی افغان طالبان کے رہنما ملا عمر کے قریبی ساتھی اور طالبان کے سابق نائب سربراہ ملا عبدالغنی برادر کو رہا کر دیا جائے گا۔ اس کا مقصد امن عمل کو آگے بڑھانا بتایا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19fhG
تصویر: picture-alliance/dpa

افغان حکومت نے ایک عرصے سے ملا عبدالغنی برادر کی رہائی کا مطالبہ کر رکھا تھا۔ ملا برادر کو سن 2010ء میں پاکستانی اور امریکی خفیہ اداروں کی مشترکہ کارروائی میں کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ وزیر اعظم نواز شريف کے مشیر برائے قومی سلامتی اور خارجہ امور سرتاج عزیز کا کہنا تھا، ’’برادر کو اس مہینے یا پھر بہت جلد رہا کیا جا سکتا ہے۔ یہ اعتماد سازی کے اقدامات کا حصہ ہے۔ ہمیں امید ہے کہ وہ امن عمل میں کردار ادا کر سکتے ہیں۔‘‘

افغان امن کونسل کے سیکریٹری محمد اسماعیل قاسمیار نے اسلام آباد کے اس فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا ہے، ’’ماضی میں عبدالغنی برادر افغانستان میں امن لانے کے لیے کردار ادا کرنے پر تیار تھے اور اسی وجہ سے انہیں جیل میں ڈال دیا گیا۔ میرےخیال میں اس سے پاکستان اور افغانستان کے مابين اعتماد کی فضاء دوبارہ پیدا ہو گی۔ یہ رہائی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔‘‘

کراچی میں ملا برادر کی گرفتاری کے بعد مختلف بیانات سامنے آئے تھے۔ افغان حکام کا الزام عائد کرتے ہوئے کہنا ہے کہ وہ اُس وقت کابل حکومت کے ساتھ خفیہ مذاکرات کر رہے تھے اور پاکستان نے ان مذاکرات کو سبوتاژ کرنے کے لیے ملا برادر کو گرفتار کیا تھا۔ ایک افغان اہلکار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی اے پی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ملا برادر کی رہائی امن عمل میں تیزی پیدا کر دے گی۔ یہ فیصلہ پاکستان کے اخلاص کو ظاہر کرتا ہے۔‘‘

پاکستان ماضی میں افغان طالبان کے دور حکومت ميں ان کا مضبوط اتحادی رہا ہے لیکن بد اعتمادی اس وقت پیدا ہوئی، جب افغانستان ميں امریکی کارروائی کے آغاز کے بعد پاکستان نے درجنوں افغان طالبان رہنماؤں کو گرفتار کرتے ہوئے امریکا کے حوالے کر دیا۔ پاکستان گزشتہ ایک سال سے تینتیس سے زائد افغان طالبان قیدیوں کو رہا کر چکا ہے۔ نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق پاکستان کو خوف ہے کہ افغانستان سے اتحادی افواج کے انخلاء کے بعد وہاں پیدا ہونے والی بدامنی پاکستان کو بھی متاثر کر سکتی ہے۔ اسی وجہ سے پاکستان افغان حکومت اور باغیوں کے مابین جلد از جلد مذاکرات کا آغاز چاہتا ہے۔

اے پی کے مطابق دوسری جانب اس بات کے بھی کوئی شواہد نہیں ہیں کہ ماضی میں رہا ہونے والے طالبان قیدیوں نے امن عمل میں کوئی کردار ادا کیا ہو۔ بلکہ کئی طالبان تو رہا ہونے کے بعد دوبارہ کرزئی حکومت کے خلاف عمل پیرا ہیں۔

افغان حکومت ماضی میں بھی حکومت پاکستان سے یہ اپیل کر چکی ہے کہ وہ رہائی پانے والے افغان طالبان کو ان کے حوالے کرے لیکن یہ قیدی پاکستان میں ہی رہا کر دیے گئے۔ اس مرتبہ بھی پاکستان نے ملا برادر کو پاکستان میں ہی رہا کرنے کا اعلان کیا ہے اور يہ واضح نہيں کہ آيا ملا برادر کو افغان حکام کے حوالے کيا جائے گا۔