1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان امریکہ کے ساتھ تجارتی مذاکرات میں پیش رفت کا خواہاں

22 فروری 2023

پاکستان اور امریکہ کے مابین پچھلے سات برسوں میں پہلی مرتبہ اعلیٰ سطحی تجارتی مذاکرات 23 فروری کو ہوں گے۔ کئی اسباب کی بنا پر حالیہ برسوں میں دونوں کے تعلقات سردی مہری کا شکار رہے ہیں، البتہ اب ان میں بہتری آ رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/4NoYW
Flagge Pakistan und USA
تصویر: Getty Images/AFP/M. Ralston

پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت سید نوید قمر نے بتایا کہ پاکستان امریکہ تجارتی اور سرمایہ کاری فریم ورک معاہدے (ٹیفا) کے تحت امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام کے ساتھ پاکستانی عہدیداروں کی جمعرات کے روز اسلام آباد میں وزارتی میٹنگ ہو گی۔

 سید نوید قمر نے کہا ہے کہ پاکستان، امریکہ کے ساتھ زراعت اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے شعبوں میں پیش رفت کا خواہاں ہے۔

پاکستان کے وفاقی وزیر تجارت نے کہا کہ اس ملاقات سے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات مضبوط ہوں گے، جو حالیہ برسوں میں سیاسی تناو کے باعث کشیدہ تھے۔ اس ملاقات سے اشیاء اور خدمات میں دو طرفہ تجارت کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔

پاکستان اور امریکہ کے مابین دفاعی مذاکرات کے دوسرے دور کا آغاز

پاکستانی سفارت خانے کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان باہمی تجارت 12ارب ڈالر کی ہے۔

سید نوید قمر نے کہا، "یہ ضروری ہے کہ ہم بات شروع کریں۔ یہ میٹنگ ہر سال منعقد ہونی تھی، لیکن کسی نہ کسی وجہ سے، وہ اتنے لمبے عرصے سے پس پشت پڑے ہوئے ہیں۔ اب جب کہ ہم آغاز کر رہے ہیں تو بہت سے ایسے شعبے ہیں، جن میں ہمیں کچھ پیش رفت کی توقع ہے۔"

امریکی تجارتی نمائندہ کیتھرین تائی کے دفتر سے اس میٹنگ کے حوالے سے کوئی تبصرہ فوری طورپر نہیں مل سکا۔

پاکستانی سفارت خانے کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تجارت 12ارب ڈالر کی ہے
پاکستانی سفارت خانے کے مطابق پاکستان اور امریکہ کے درمیان باہمی تجارت 12ارب ڈالر کی ہےتصویر: picture-alliance/dpa/A.Gulfam

سرد مہری کے بعد تعلقات بہتری کی جانب

دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں سرد مہری کی بڑی وجہ امریکہ کے پاکستان کی جانب سے افغان طالبان کی مبینہ حمایت کے بارے میں خدشات ہیں، تاہم پاکستان نے ہمیشہ اس حمایت سے انکار کیا ہے۔

پاکستان میں انسداد دہشت گردی میں مدد کی امریکی پیشکش

 نوید قمر نے کہا کہ پاکستان امریکہ کو آم کی برآمدات میں اضافے اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر پروگرامنگ سروسز میں تجارت کو یقینی بنانے کا خواہاں ہے جبکہ امریکہ بیف اور سویابین کی برآمدات کو فروغ دینا چاہتا تھا۔

انہوں نے کہا، "جب ہم تجارت کی بات کرتے ہیں، تو ہم پورے منظر نامے کی بات کرتے ہیں، لیکن ہم ان چیزوں پر توجہ مرکوز کر رہے ہیں کیونکہ یہ فوری طور پر ہونا شروع ہو جائیں گی۔"

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کو یہ بھی امید ہے کہ آئی ٹی اور فارماسیوٹیکل پر خصوصی  توجہ سے ایک طویل عرصے بعد مزید امریکی سرمایہ کاری لائی جا سکے گی۔ جب کہ اس عرصے میں چین غالب سرمایہ کار بن گیا ہے۔

پاکستان امریکہ کی مخالفت کی استطاعت نہیں رکھتا، مبصرین

انہوں نے کہا، "ہم نہیں چاہتے کہ ایک ملک کو کھلا میدان مل جائے۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ ایک کھلا مسابقتی ماحول ہو۔"

نوید قمر نے مزید کہا کہ پاکستان کووڈ انیس کی وبا سے قبل چین پر انحصار کرنے والی امریکی سپلائی چینز کو متنوع بنانے میں مدد کرنے کے لیے اچھی پوزیشن میں تھا، لیکن اب دوسرے علاقائی سپلائرز کی طرف منتقل ہونا شروع ہو گیا ہے۔ یہ وسطی ایشیا کے لیے  داخلی دروازے کے طور پر کام کرسکتا ہے۔

ج ا/ ص ز (روئٹرز)