1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان امریکہ کی مخالفت کی استطاعت نہیں رکھتا، مبصرین

17 نومبر 2022

پاکستان سنگین صورتحال سے گزر رہا ہے۔ اس ملک کی اندرونی اور خارجہ پالیسیاں کس مخمصے کا شکار ہیں، اس بارے میں سیاسی تجزیہ کار اور ماہرین مختلف آرا قائم کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4Jfsd
Paksitan - US-Delegierte Alice Wells trifft Qamar Javed Bajwa
تصویر: picture alliance/AP Photo/alice wells

گزشتہ دو ماہ کے دوران پاکستان میں رونما ہونے والے چند غیر معمولی واقعات کے پس منظر میں بہت سے ماہرین اور مبصرین جنوبی ایشیا کی اس جوہری طاقت کی حامل ریاست میں خانہ جنگی کی سی صورتحال پیدا ہونے کے خطروں سے متنبہ کر رہے ہیں۔ ساتھ ہی ان کا کہنا ہے کہ اگر اس پر قابو نہ پایا گیا تو اس ملک کی خارجہ پالیسی مزید متاثر ہو گی۔

پاکستان میں 'ملٹری اور سول حکومت' کے تعلقات کے 'سوئیٹ اینڈ ساور ریلیشنز' یا تلخ و شیریں  تعلق کی تاریخ بھی اتنی ہی پرانی ہے جتنی کے خود اس ملک کے قیام کی۔ اس ملک کی 75 سالہ تاریخ میں نام نہاد جمہوری حکومتوں کا قیام اور اس کا اختتام ہمیشہ سے ایک سیاسی کھیل رہا ہے، جس کی وجہ سے نا تو اس ملک میں کبھی جمہورت پختہ ہو پائی نہ ہی جمہوری ادارے پروان چڑھ سکے۔

پاکستان میں اب تک شاید ایک ہی ادارہ ایسا ہے جو مسلسل ترقی کرتا رہا، اور جس کی بنیادیں بہت مضبوط ہیں اور ملک کے تمام اندرونی اور بیرونی معاملات میں اس کا مکمل کنٹرول ہے۔ یہ ادارہ ہے 'پاکستانی فوج' ۔

فوج نے ان 75 سالوں میں سیاسی لیڈروں کی لگام ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھی جسے وہ وقتاً فوقتاً کھینچتی رہتی ہے اور سیاسی گھوڑوں کو وہیں رکنا پڑتا ہے جہاں ان کی لگام کھینچ دی جائے۔ پاکستانی عوام کافی حد تک اس سیاسی ماحول کے عادی ہو چُکے ہیں۔ یا یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ ان کے پاس کوئی دوسرا آپشن یا متبادل نہیں۔

خطرے کی گھنٹی بج گئی

پاکستان میں گزشتہ چند برسوں کے دوران سیاسی اور معاشی بحرانوں میں بہت زیادہ شدت پیدا ہوئی ہے۔ ایسے میں سول ملٹری تصادم کا کھلم کھلا مظاہرہ پاکستانی عوام کے ساتھ ساتھ بیرونی دنیا میں بھی لمحہ فکریہ کے طور پر محسوس کیا گیا۔

گزشتہ ماہ یعنی اکتوبر کی 27 تاریخ کو پاکستان کے ڈی جی آئی ایس پی آر بابر افتخار اور آئی ایس آئی چیف جنرل ندیم انجم کی پریس کانفرنسکو ملکی تاریخ میں سول ملٹری تعلقات کے ایک خطرناک موڑ کی حیثیت سے دیکھا جا رہا ہے۔ ان دونوں عسکری اداروں کے سربراہان نے ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے مقبول لیڈر عمران خان پر نہ صرف کھُلی تنقید کی بلکہ ان پر متعدد الزامات عائد کیے۔

اس صورتحال کے بارے میں پاکستانی سیاسی تجزیہ کار پروفیسر مونس احمر کا کہنا ہے کہ یہ پاکستان کی تاریخ کا ایک 'انتہائی خطرناک موڑ' ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ فوج کے اندر دراڑ پڑنے کی یہ  واضح علامات ہیں۔نیشنل سکیورٹی کمیٹی اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں تھا، فوجی ترجمان

 

مونس احمر کی رائے میں پاکستانی فوج کے متحد رہنے پر ایک سوالیہ نشانہ لگ چُکا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں، ''جب اتنے حساس ادارے آپس میں ٹکرائیں گے تو ملک کو ناقابل تلافی نقصان پہنچے گا۔''

کیا موجودہ  صورتحال مارشل لاء کی نشاندہی ہے؟

پاکستان کی داخلہ اور خارجہ پالیسی پر گہری نظر رکھنے والی اور کراچی یونیورسٹی کے  بین الاقوامی تعلقات کے شعبے کی سربراہ ڈاکٹر شائستہ تبسم نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو میں کہا، ''پاکستان میں حالات جو بھی ہوں موجودہ حکومت اپنی ٹرم پوری کر لے گی کیونکہ اپوزیشن کی طرف سے یعنی پی ٹی آئی کے رہنما اور دیگر سیاستدانوں کی طرف سے بھی ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ معاملات ان کے بھی قابو میں نہیں ہیں۔ ایک وقت ایسا لگتا تھا کہ ممکنہ طور پر آرمی ٹیک اوور کر لے گی لیکن اب صورتحال اُس مرحلے سے بھی باہر ہو گئی ہے۔''

ڈاکٹر شائستہ تبسم کے بقول آئندہ سال الیکشن ہونا ہیں جن کا انعقاد رمضان کے بعد ہی ہوتا نظر آ رہا ہے۔

پاکستان کی خارجہ پالیسی

ڈی ڈبلیو نے ڈاکٹر تبسم سے پوچھا کہ موجودہ صورتحال کی روشنی میں وہ مستقبل میں پاکستان کی خارجہ پالیسی کے بارے میں کیا کہیں گی؟ اس کے جواب مں انہوں نے کہا، ''میرے خیال میں پاکستان کے لیے ایک مثبت چیز یہ ہے کہ وہ ایف اے ٹی ایف سے نکل آیا ہے۔ دوسری طرف پاکستان پہلے دو جہتی خارجہ پالیسی کے بیچ مخمصے میں تھا۔ ایک یہ کہ پاکستان پر روس کا کیمپ جوائن کرنے کا دباؤ تھا اور امریکہ کے مخالف کیمپ کی کوشش تھی کہ پاکستان واشنگٹن سے فاصلہ قائم کر لے اور اپنا جھکاؤ روسکی طرف کر لے۔ دوسری طرف امریکہ بھی پاکستان پر کڑی نظر رکھے ہوئے تھا۔ سابق پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے حالیہ بیانیے سے بھی یہی تاثر مل رہا ہے کہ اُن کی طرف سے امریکہ کے ساتھ معاملات میں جو بگاڑ پیدا ہوا تھا، وہ اب ختم ہو جائے گا اور پاکستان اور امریکہ کے مابین معاملہ افہام و تفہیم سے طے پا گیا ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ پاکستان جو آپشن ایکسپلور کر رہا تھا، روس کیساتھ تعلقات بنانے کا اُسے امریکہ کی خواہش کے مطابق روک دیا گیا۔''

ڈاکٹر شائستہ تبسم کا مزید کہنا ہے، ''امریکی پالیسی میں بھی تبدیلی آئی ہے اور پاکستان کی خارجہ پالیسی بھی اُسی طرح سے مغرب نواز ہی رہے گی اور پاکستان کسی امریکہ مخالف کیمپ میں شامل ہونے کا متحمل ہی نہیں ہو سکتا۔ بظاہر یہ امر واضح ہے کہ پاکستان ماضی کی طرح افغان جنگ کے دور یا اُس سے پہلے افغانستان پر سویت حملے اور قبضے کے زمانے میں جس طرح پروکسی رہا تھا آئندہ بھی اُسی طرح امریکہ کے ساتھ رہے گا۔''

پاکستان کا مغربی ممالک سے طالبان کے ساتھ تعاون کا مطالبہ

پاکستان کا امریکہ پر انحصار کیوں ہے؟

تجزیہ کار ڈاکٹر تبسم کے بقول، ''پاکستان کی معاشی محتاجی اور اس کا ورلڈ فائنینشل آرگنائزیشنز جیسے کہ آئی ایم ایف اور امریکہ کے زیر نگیں ہونا اس امر کا تقاضہ ہے کہ پاکستان مغربی دنیا اور امریکہ کےساتھ ہی چلتا رہے۔'' مزید یہ کہ امریکی پالیسی میں بھی کچھ تبدیلیاں آئی ہیں۔

یاد رہے کہ عمران خان نے حال ہی میں اپنے ایک انٹرویو میں اپنے پرانے موقف کے برعکس کہا تھا کہ اب وہ اپنی حکومت کی برطرفی  کے معاملے میں اب امریکہ کو الزام نہیں دیتے۔ امریکی مبینہ سازش کے بارے میں عمران خان نے کہا تھا کہ وہ ''اس موضوع کو ختم کر چُکے ہیں۔ ترک کر چُکے ہیں۔''

کشور مصطفیٰ