1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی خواتین: فی کس اوسط شرح افزائش میں کمی، اقوام متحدہ

3 فروری 2025

اقوام متحدہ کی ورلڈ فرٹیلٹی رپورٹ 2024 کے مطابق پاکستان میں شرح پیدائش میں کمی آئی ہے اور اب یہ صرف 3.6 فی خاتون رہ گئی ہے۔ سن 1994 میں پاکستان میں فرٹیلٹی کی شرح فی خاتون چھ بچوں کی پیدائش تک تھی۔

https://p.dw.com/p/4pxq5
پاکستانی خواتین
رپورٹ کے مطابق وہ ممالک، جو پہلے ہی معاشی، سماجی اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں، انہیں آبادی میں اضافے کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنا بہت اہم ہے تصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

شرح پیدائش سے متعلق اقوام متحدہ کی تازہ رپورٹ ابھی منظر عام پر نہیں آئی ہے، تاہم میڈيا ادارے ڈان نے اس کے شائع ہونے سے قبل ہی، غیر ترمیم شدہ رپورٹ، کے حوالے سے یہ معلومات جاری کی ہیں۔

اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں شرح پیدائش میں پہلے سے کافی کمی آئی ہے اور اب یہ صرف 3.6 فی خاتون رہ گئی ہے۔ اس کے مقابلے میں سن 1994 میں پاکستان کے اندر فرٹیلٹی کی شرح فی خاتون چھ بچوں کی پیدائش تک تھی۔

نومولود پاکستانی بچوں میں شرح اموات: مناسب نگہداشت ہر بچے کا بنیادی حق

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مطابق منصوبہ بند مداخلتوں کے ذریعے کم عمری میں شرح پیدائش کو کم کرنے سے گہرے سماجی و اقتصادی فوائد حاصل ہوتے ہیں، جو کم شرح پیدائش میں بھی مزید اہم کردار بھی ادا کر سکتی ہیں۔

اس رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ  کم عمر لڑکیوں اور نوجوان خواتین کی زندگیوں میں بہت جلد بچے پیدا کرنے سے گریز کرنے سے مزید تعلیم، ملازمت اور زندگی بہتر ہونے کے ساتھ ہی زندگی کی دیگر خواہشات کی تکمیل کے مواقع بھی میسر ہو سکتے ہیں۔

پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں خواتین تین ملین کم کیوں؟

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ سن 2024 میں تقریباً 1.8 بلین ایسے لوگ، یعنی عالمی آبادی کا تقریبا 22 فیصد، 63 ممالک اور علاقوں میں رہتے تھے، جو آبادیاتی تبدیلی کے ابتدائی یا درمیانی مراحل میں ہیں اور جن کے سن 2054 کے بعد ہی کم بارآوری تک پہنچنے کا امکان ہے۔

پاکستانی خواتین
اقوام متحدہ کی اس تازہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران عالمی شرح پیدائش میں تقریباً مسلسل کمی آئی ہےتصویر: Asif Hassan/AFP/Getty Images

اس میں کہا گیا ہے، جن خطوں میں حکومتیں ابھی تک شرح پیدائش میں منتقلی کے عمل کو مکمل کرنے سے دور ہیں، انہیں لڑکیوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایسے قوانین اور طریقہ کار کے نفاذ کو مضبوط کرنا چاہیے۔ اس میں بچوں کی شادی پر پابندی کے قوانین اور ایسے ضابطے شامل ہیں، جو جنسی اور تولیدی صحت کی دیکھ بھال، معلومات اور تعلیم تک مکمل اور مساوی رسائی کی ضمانت دیتے ہوں۔

رپورٹ کے مطابق ان ممالک کے لیے، جو پہلے ہی معاشی، سماجی اور ماحولیاتی چیلنجوں سے نبرد آزما ہیں، انہیں آبادی میں اضافے کا مؤثر طریقے سے انتظام کرنا بہت اہم ہو گا۔

پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان مسائل کو حل کر کے، ممالک صحت مند اور زیادہ پیداواری کی صلاحیت والی آبادی بڑھا سکتے ہیں۔ اس سے معیار زندگی کو بڑھایا جا سکتا ہے اور اگلی نسل کے لیے ایک پائیدار مستقبل کو بھی یقینی بنایا جا سکتا ہے۔

یونیسیف کی رپورٹ، کیا صحت پر حکومت کی کوئی توجہ ہے؟

اقوام متحدہ کی اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ نصف صدی کے دوران عالمی شرح پیدائش میں تقریباً مسلسل کمی آئی ہے، جو کہ سن 1970 میں فی عورت 4.8 بچوں کی پیدائش کی اوسط شرح سے 2024 میں 2.2 تک پہنچ گئی ہے۔ سن 1990میں جب عالمی شرح پیدائش کی 3.3 تھی، اس کے مقابلے میں آج خواتین اوسطاً ایک بچہ کم پیدا کرتی ہیں۔

ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)

آبادی بڑھنے کے فوائد اور نقصانات کیا ہیں؟