1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان کے لیے بہت زیادہ آبادی کا بوجھ کس حد تک قابل برداشت؟

11 جولائی 2022

سن دو ہزار سترہ میں میں برطانوی میگزین ٹائمز ہائر ایجوکیشن نے پچاس نوبل انعام یافتہ سائنس دانوں سے پوچھا تھا، ’’بنی نوع انسان کے لیے سب سے بڑا خطرہ کون سا ہے؟“ جواب تھا: ’’تیزی سے بڑھتی آبادی اور ماحولیاتی تنزلی۔‘‘

https://p.dw.com/p/4DwfW
تصویر: picture-alliance/Pacific Press/R. Sajid Hussain

یہ صرف تقریباﹰ پانچ برس پہلے ہی کی بات ہے کہ کیمسٹری، فزکس، طب، نفسیات اور اقتصادیات جیسے شعبوں کے دنیا کے ان درجنوں ماہرین کی بہت بڑی اکثریت کا موقف یہ تھا کہ ”بہت تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی اور قدرتی ماحول کا انحطاط" ہی انسانیت کے لیے سنگین ترین خطرہ ہے۔ تب ایسا پہلی مرتبہ نہیں کہا گیا تھا۔ آبادی میں تیز رفتار اضافہ اور اس کے ممکنہ مضمرات کی بازگشت گزشتہ چند دہائیوں سے مسلسل سنائی دی رہی ہے۔

پاکستان میں 14 سو سے زائد شہری اعلانیہ ملحد

اس تناظر میں اقوام متحدہ کی طرف سے ہر سال 11 جولائی کو منائے جانے والے آبادی کے عالمی دن کا مقصد بھی یہی ہے کہ دنیا کی بڑھتی ہوئی آبادی کے مسائل، فیملی پلاننگ اور انسانی حقوق سے متعلق آگاہی پھیلائی جائے۔

پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک

 اپنے ہاں پچھلی مردم شماری کے مطابق تقریباً 20 کروڑ 77 لاکھ سے زائد بفوس پر مشتمل پاکستان اس وقت آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں سب سے بڑا ملک ہے۔ ورلڈ پاپولیشن ریویو کے مطابق اس فہرست میں شامل پہلے چار بڑے ممالک یعنی چین، بھارت، امریکہ اور انڈونیشیا کے مقابلے میں پاکستان میں آبادی میں اضافے کی رفتار سب سے زیادہ ہے۔ اگر 3.1 فیصد کی سالانہ شرح سے پاکستانی شہریوں میں افزائش نسل کا سفر اسی طرح جاری رہا، تو 2045ء تک اس جنوبی ایشیائی ملک کی آبادی موجودہ سے بھی دو گنا ہو جانے کا خدشہ ہے۔

Pakistan Bhit Sha Shahida Soomro
پاکستانی صوبہ سندھ میں ایک لیڈی ہیلتھ ورکر مقامی خواتین کو فیملی پلاننگ کی افادیت سے آگاہ کرتے ہوئےتصویر: DW/S. Jillani

اپنے ثقافتی خد و خال اور سماجی ڈھانچے میں ایران اور بنگلہ دیش سے زیادہ مختلف نہ ہونے کے باوجود پاکستان ان دونوں مسلم اکثریتی ممالک کی طرح آبادی کو کنٹرول کرنے کی کسی قابل فخر تاریخ کا حامل نہیں۔ 1971ء میں بنگلہ دیش کی آبادی تقریباً سات کروڑ جبکہ پاکستان کی آبادی لگ بھگ چھ کروڑ تھی۔ پچاس برس بعد بنگلہ دیش کی آبادی 16 کروڑ 74 لاکھ تھی جبکہ پاکستان کی آبادی 20 کروڑ 70 لاکھ ہو چکی تھی۔ مطلب یہ کہ اس عرصے میں پاکستان میں بنگلہ دیش کی نسبت تقریباً پانچ کروڑ بچے زیادہ پیدا ہوئے۔

پاکستان میں ہر 20 میں سے نو افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار

ایران میں 1980ء میں فی خاتون 6.5 بچوں کی اوسط سے افزائش نسل جاری تھی جو ورلڈ بینک کی 2020ء کی ایک رپورٹ کے مطابق تب تک کم ہو کر 2.1 بچے رہ گئی تھی۔ اسی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اب بھی 3.1 بچے فی خاتون کی شرح سے افزائش نسل جاری ہے، جو ماہرین کے الفاظ میں 'خوفناک حد تک بلند‘ شرح ہے۔

آبادی کنٹرول نہ ہونے کی بنیادی وجوہات

اس سوال کے جواب کے لیے ڈی ڈبلیو اردو نے پاکستان کے سب سے بڑے سوشل سیفٹی نیٹ میں گزشتہ تین سال سے بھی زائد عرصے تک تکنیکی اور آپریشنل امور کے انچارج اور نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پاپولیشن اسٹڈیز میں کئی منصوبوں کی نگرانی کرنے والے سینئر بیوروکریٹ وقار شیرازی سے بات کی۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان تین مختلف سطحوں پر کسی قابل ذکر کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر سکا۔

Pakistan Flüchtlinge Afghanistan humanitäre Krise Symbolbild
اگر موجودہ آبادی کی بنیادی ضروریات اس وقت بھی پوری نہیں کی جا سکتیں، تو مستقبل میں یہی کام مشکل تر ہو جائے گاتصویر: KARIM ULLAH AFP via Getty Images

”پالیسی سازوں نے عمدہ پالیسیاں اور مؤثر قوانین نہیں بنائے کیوں کہ آبادی کا مسئلہ عوامی مقبولیت سے منسلک نہیں۔ ممکنہ خطرات سے آگاہ کرنے والے ادارے کبھی بھی درست اندازہ نہ لگا سکے، جب بھی مردم شماری ہوئی، مختلف اداروں کے پیش کردہ اعداد و شمار ناقص ہی ثابت ہوئے۔ تیسری ناکامی پالیسیوں کا عملی نفاذ کرنے والے اداروں کی نچلی سطح پر ناکامی ہے۔‘‘

پاکستان کے نصف عوام کورونا ویکیسن لگوانا ہی نہیں چاہتے، سروے

وقار شیرازی کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں اہم ترین اور بنیادی قدم آگاہی مہم تھی، ”ہم نے ایک عرصے تک مانع حمل ادویات اور کنڈومز کے اشتہارات دیکھے، جنہوں نے وسیع پیمانے پر آگاہی پھیلائی۔ لیکن پھر اچانک ایسے اشتہارات نظر آنا بند ہو گئے۔‘‘ انہوں نے کہا، ''آگاہی کا براہ راست تعلق تعلیم سے ہے جس کے آبادی پر ہونے والے اثرات سے انکار قطعاﹰ ممکن نہیں۔‘‘

خواتین میں شرح خواندگی بھی اہم ترین عوامل میں سے ایک

پاکستان ڈیموگرافک اینڈ ہیلتھ سروے دو ہزار سترہ اور دو ہزار اٹھارہ کی رپورٹ کے مطابق ملک کی ایسی خواتین جنہوں نے بالکل کوئی تعلیم حاصل نہیں کی، ان کے ہاں میں بچوں کی پیدائش کی فی کس اوسط 4.2 بچے بنتی ہے جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین میں یہی اوسط 2.6 بچے فی خاتون رہی۔

اسی طرح بلند شرح تعلیم والے علاقوں میں مانع حمل ذرائع کا استعمال بھی زیادہ ہے۔ اس سروے کے مطابق پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں مانع حمل ذریعے کے طور پر کنڈومز کا استعمال 18.7 فیصد ہے جبکہ فاٹا کہلانے والے سابقہ قبائلی علاقوں میں یہی تناسب صرف 2.9 فیصد بنتا ہے۔

مقامی سطح پر ریاستی اداروں کی ناکامی

قومی آبادی سے متعلق پالیسیوں کے عملی نفاذ کے ذمے دار اداروں کی نچلی ترین یا مقامی سطح پر ناکامی کی وضاحت کیسے کی جا سکتی ہے؟ اس سوال کے جواب میں وقار شیزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''جب سے یہ شعبہ صوبائی حکومتوں کے سپرد ہوا ہے، تب سے صورتحال مزید سنگین ہو چکی ہے۔ ہر ضلع میں بہبود آبادی کے ذمے دار ادارے موجود تو ہیں، لیکن وہ عوامی آگہی مہموں، مقامی سطح پر عوامی اجتماعات یا عام شہریوں کو تحریک دینے کے کام سے حتی المقدور اجتناب کرتے ہیں۔‘‘

عالمی یوم بیت الخلا: صاف ٹوائلٹس سے لاکھوں پاکستانی محروم

وقار شیزاری کہتے ہیں، ''اپنی روزمرہ کی ذمہ داریاں انجام دیتے ہوئے ہم مسلسل اس مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ ایک تو مانع حمل ذرائع اور مصنوعات اب بہت ہی کم تعداد میں درآمد کی جا رہی ہیں، دوسرے یہ کہ ضلعی سطح پر بھی اہداف غیر متعین ہی ہیں۔ حالانکہ اہداف، نگرانی اور جانچ پڑتال کے بغیر کوئی بھی منصوبہ کبھی کامیاب نہیں ہو سکتا۔‘‘ پاپولیشن افیئرز کے اس ماہر کے مطابق، ''یہ امر بھی افسوس ناک ہے کہ جو تھوڑی بہت مانع حمل مصنوعات ضلعی سطح تک پہنچتی ہیں، ان کی مؤثر تقسیم نہ ہونا یا ان کا بغیر استعمال کے ہی ضائع ہو جانا بھی اب معمول بن چکا ہے۔‘‘

آبادی کی بحث میں مذہب کا حوالہ

محکمہ بہبود آبادی میں گزشتہ 18 برسوں سے ایک فیلڈ ورکر کی حیثیت سے فعال خوشاب کی رخسانہ بی بی وقار شیزاری کے موقف سے مکمل اتفاق نہیں کرتیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہم معاشرے میں آگاہی پھیلانے اور عوام سے عملی تعاون کو ممکن بنانے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ لیکن عام شہریوں کے نزدیک ہمارا کام ناپسندیدہ اور بے حیائی پر مبنی ہے۔ فلیڈ ورکرز کی حیثیت سے ہم لوگوں کو مانع حمل مصنوعات مہیا تو کر سکتے ہیں لیکن ان کے ذہن سے یہ نہیں نکال سکتے کہ ان کی سوچ کے مطابق یہ مبینہ طور پر غیر اسلامی ہے۔‘‘

آبادی بم کی ٹک ٹک جاری: پاکستان اب دنیا کا پانچواں بڑا ملک

وزارت بہبود آبادی کے سابق ترجمان الطاف پرویز ہاشمی نے ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ بات چیت میں 'روایتی اسلامی معاشرے‘ کو آبادی کے قابو میں نہ آنے کی بڑی وجہ قرار دیا۔

وہ کہتے ہیں، ''ہمارے ہاں تو آج تک یہی طے نہیں ہو سکا کہ آبادی کو کنٹرول کرنا اسلامی ہے یا غیر اسلامی۔ مساجد کے منبروں سے جو باتیں کہی جاتی ہیں، وہ عام لوگوں پر اثر کرتی ہیں۔ یہ بھی ایک بڑی وجہ ہے کہ پاکستان میں مانع حمل ذرائع اور مصنوعات کا استعمال ناجائز اور غیر اسلامی سمجھا جاتا ہے۔‘‘

انہوں نے آبادی میں اضافے کی ایک دوسری مگر اہم سماجی وجہ یہ بھی بتائی کہ پاکستان میں لڑکیوں کی پیدائش کے مقابلے میں لڑکوں کی پیدائش کو ترجیح دی جاتی ہے۔ ''خواہش یہی ہوتی ہے عام شہریوں کی اکثریت کی۔ جب تک لڑکا یا لڑکے پیدا نہیں ہوں، بچے پیدا کیے جانا عام سوچ ہے۔ اس لیے جب تک عوام میں شعور پیدا نہیں ہو گا، یہ طرز عمل نہیں رکے گا۔‘‘

پاکستان اتنی بڑی آبادی کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے؟

وقار شیرازی کہتے ہیں کہ مستقبل کی پلاننگ کے سلسلے میں جب بھی یہ سوال مختلف اجلاسوں میں زیر بحث آتا ہے، پاکستانی فیصلہ سازوں کے چہروں پر ہوائیاں اڑنے لگتی ہیں، ”مستقبل میں اتنی بڑی آبادی کے لیے خوراک، پانی، تعلیم اور صحت کی سہولیات فراہم کرنا موجودہ اقتصادی بحرانی صورتحال میں تو بڑی دور کی بات ہے، ایسا کرنا تو تب بھی ممکن نہیں ہو گا جب اگر مثال کے طور پر اقتصادی ترقی کی شرح چار فیصد سے بڑھ کر 20 بھی ہو جائے۔‘‘

سن 2019 کے اختتام پر عالمی آبادی پونے آٹھ ارب

الطاف پرویز ہاشمی کا کہنا ہے، ''شہری اور دیہی علاقوں میں آبادی کا توازن بگڑ رہا ہے، جس کی قیمت ماحولیاتی تباہی اور تنزلی اور خوراک کے بحران کی صورت میں ادا کرنا پڑ رہی ہے۔‘‘

دیہی اور شہری آبادی کے تناسب کا موازنہ

پاکستان میں 1955ء میں ملک کی صرف 19 فیصد آبادی شہروں میں رہتی تھی۔ مسلسل اضافے کے بعد 2020ء میں یہی شرح 35 فیصد یو چکی تھی۔ ماہرین کے مطابق 2055ء تک پاکستان میں شہری اور دیہی علاقوں کی آبادی کا تناسب برابر ہو جائے گا۔ تب 50 فیصد پاکستانی شہروں میں رہ رہے ہوں گے اور اتنے ہی دیہی علاقوں میں۔

پاکستان سے غربت کا خاتمہ: حکومت کو کون سے تین کام کرنا ہوں گے؟

الطاف پرویز ہاشمی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بڑھتی ہوئی آبادی کی رہائشی ضروریات کے پیش نظر زرعی زمینوں کی جگہ ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا جال بچھایا جا رہا ہے۔ جب ایسا ہو گا تو کھانے کے لیے کافی گندم کہاں سے لائیں گے؟" پاکستان کے کسی بھی شہر میں چلے جائیں، ٹریفک کا رش، ہسپتالوں اور سکولوں کی ناکافی تعداد، پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب سے جڑے مسائل شہریوں کا جینا حرام کر چکے ہیں۔ ماحولیاتی تباہی اور درجہ حرارت میں مسلسل اضافہ بھی اپنی جگہ ہیں۔ تو اگر ہم ملک کی موجودہ آبادی کی بنیادی ضروریات اس وقت بھی پورا نہیں کر سکتے، تو آنے والے کل میں ہم کیا کریں گے؟"

وقار شیرازی تنبیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں، ''بے ہنگم آبادی کا پھیلتا ہوا سیلاب پورے سماجی ڈھانچے کو بہا کر لے جائے گا۔ اس کے سامنے ابھی سے کوئی بند نہ باندھا گیا، تو پھر بہت دیر ہو جائے گی۔ پھر یہ مسئلہ ہم سے بالکل حل نہیں ہو پائے گا۔ اس لیے آبادی میں بہت تیز رفتار اضافے کے کے اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے۔"

موسمیاتی تبدیلیاں: ہزاروں پاکستانی ہجرت پر مجبور