1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نیٹو سپلائی کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط جلد ہونے کا امکان

Kishwar Mustafa13 جولائی 2012

دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی بحالی کے لیے جو بھی نیا معاہدہ کیا جائے اس میں شفافیت کے تقاضے پورے کیے جانے چاہیئں۔

https://p.dw.com/p/15XHU
تصویر: Reuters

پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ افغانستان میں موجود امریکی اور نیٹو افواج کو سامان رسد کی ترسیل سے متعلق پاکستان اور امریکہ کے درمیان تکنیکی سطح پر بات چیت مکمل ہو چکی ہے۔ دفتر خارجہ کے ترجمان کے مطابق سامان رسد کی ترسیل کے لیے اسلام آباد اور واشنگٹن کے درمیان جلد ہی مفاہمت کی ایک یاداشت پر دستخط کیے جائیں گے۔

پاکستان نے سات ماہ کی بندش کے بعد تین جولائی کو نیٹو سپلائی لائن بحال کی تھی اور اطلاعات کے مطابق نیٹو سپلائی لائن سے متعلق اب بھی سابق فوجی صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں کیے گئے معاہدے پر ہی عمل ہو رہا ہے۔ پاکستانی دفتر خارجہ کے ذرائع کے مطابق امریکہ اور پاکستان کے ماہرین پر مشتمل اعلیٰ سطحی ٹیموں نے طویل مشاورت کے بعد تکنیکی سطح پر بات چیت مکمل کی ہے۔ اس بات چیت میں دونوں ممالک کے مفادات کو مد نظر رکھا گیا ہے۔ ادھر تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ دونوں ممالک کے درمیان عدم اعتماد کی موجودہ فضاء میں نیٹو سپلائی کے حوالے سے کسی حتمی معاہدے پر پہنچنا ایک چیلنج ہوگا۔

NATOs LKW und Container in Peschawar Pakistan
سات ماہ کی بندش کے بعد نیٹو سپلائی لائین دوبارہ کھولی گئی ہےتصویر: DW

اسلام پالیسی ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے سربراہ ڈاکٹر نورالحق کا کہنا ہے کہ‘‘ دونوں طرف بدگمانیاں ہیں اور یہ بد گمانیاں ختم ہونی چاہیئیں۔ ملکوں کے جو تعلقات ہوتے ہیں وہ ان کے مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔ یہ نہیں کہ مشرف صاحب نے کچھ اور کہا اور موجودہ حکومت کچھ کہہ رہی ہے۔ حکومت کو وہی کرنا چاہیے جو ہمارے ملک کے لیے بہتر ہے اور اسی طرح امریکہ کی حکومت وہی کرے گی جو ان کے مفاد میں ہے۔ تواس میں زاتیات شامل نہیں ہونی چاہیے''

پاکستان نے 26 نومبر 2011ء کو سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو کے فضائی حملے میں اپنے 24 فوجیوں کی ہلاکت کے بعد افغانستان میں نیٹو افواج کے لیے سامان رسد لے جانے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اسی پابندی کے دوران امریکہ اور نیٹو ممالک کے ساتھ مستقبل میں تعلقات کا از سر نو جائزہ لے کر سفارشات بھی پیش کی تھیں۔ ان سفارشات میں نیٹو سپلائی کے لیے معاشی فائدے میں اضافے اور فوجی ہتھیار لے جانے کو ممنوع قرار دینے کا کہا گیا تھا۔

Pakistatnische Außenministerin Hina Rabbani Khar
حنا ربانی کھر کا واشنگٹن کا دورہ جلد متوقع ہےتصویر: picture-alliance/dpa

دفاعی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ نیٹو سپلائی بحالی کے لیے جو بھی نیا معاہدہ کیا جائے اس میں شفافیت کے تقاضے پورے کیے جانے چاہیئں۔ دفاعی تجزیہ نگار کرنل ریٹائرڈ محمد حنیف نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ انٹرویومیں کہا کہ مستقبل میں کسی بھی ناخوشگوار صورتحال سے بچنے کے لیے نئے مجوزہ معاہدے کی منظوری بھی پارلیمنٹ سے لی جانی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ‘اگر معاہدہ کرنا ہی ہے تو اسے کھلا ہونا چاہیے۔ دونوں ممالک کو اپنی ذمہ داریوں کا پتہ ہونا چاہیے اور یہ کہنا کہ کیا جائے گا اور کیا نہیں یہ طے ہونا چاہیے اور دونوں طرف سے اس کی وجوہات بھی بیان کی جانی چاہیے۔ اس معاہدے میں تحریری طورپر کہا جائے کہ سلالہ جیسے واقعات دوبارہ نہیں ہونگے کیونکہ جب تک ہم ایک دوسرے کی خود مختاری کا احترام نہیں کرین گے تو پھر ہم اتحادی کیسے کہلا سکتے ہیں۔''

دریں اثناء پاکستانی دفتر خارجہ کا کہنا ہے کہ وزیر خارجہ حنا ربانی کھر جلد ہی واشنگٹن کا دورہ کرین گی جہاں نیٹو سپلائی کے حوالے سے مفاہمت کی یادداشت پر دستخط کیے جائیں گے۔

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادرارت: کشور مصطفیٰ

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں