1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستنیدر لینڈز

نیدرلینڈز میں انتہائی دائیں بازو کی حکومت اقتدار میں آ گئی

2 جولائی 2024

یورپی یونین کے رکن ملک نیدرلینڈز میں گزشتہ انتخابات کے سات ماہ سے بھی زیادہ عرصے بعد نئی حکومت نے حلف اٹھا لیا ہے۔ نئی مخلوط حکومت پر انتہائی دائیں بازو کے عوامیت پسند رہنما گیئرٹ ولڈرز کو کافی زیادہ کنٹرول حاصل ہے۔

https://p.dw.com/p/4hmnF
Niederlande | Vereidigung neuer Regierungschef Dick Schoof
ڈچ بادشاہ آلیکسانڈر، دائیں، اور نئے وزیر اعظم ڈک سخوفتصویر: Remko de Waal/ANP/picture alliance

ایمسٹرڈیم سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق نئی ڈچ حکومت ایک ایسی مخلوط حکومت ہے، جس میں چار جماعتیں شامل ہیں۔ نئے حکومتی سربراہ 67 سالہ ڈک سخوف ہیں، جو ڈچ سیکرٹ سروس کے ایک سابق سربراہ ہیں اور ماضی میں انسداد دہشت گردی کے ذمے دار ملکی ادارے کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں۔

گیئرٹ ولڈرز کے پاس کوئی حکومتی عہدہ نہیں

نیدرلینڈز میں گزشتہ سال کے اواخر میں جو قومی انتخابات ہوئے تھے، ان میں ملک میں تارکین وطن کی آمد کے علاوہ اسلام کی مخالفت کی وجہ سے بھی مشہور اور دائیں بازو کی کٹر سوچ کے حامل عوامیت پسند رہنما گیئرٹ ولڈرز کی پارٹی نے کامیابی حاصل کی تھی۔

ولڈرز کی جماعت کی کامیابی نے بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کو حیران کر دیا تھا۔ لیکن ہر کوئی جانتا تھا کہ ولڈرز کے لیے ممکنہ طور پر نئے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنا اور نئی ڈچ حکومت تشکیل دینا بہت ہی مشکل ہو گا۔

ڈچ الیکشن میں اسلام اور یورپی یونین کے مخالف ولڈرز کی کامیابی پر تشویش

پھر ایسا ہوا بھی اور جب  گیئرٹ ولڈرز کو عملاﹰ یقین ہو گیا کہ وہ نئی ملکی حکومت تشکیل نہیں دے سکتے، تو انہوں نے ایک ایسی مخلوط حکومت کے قیام کی کاوشیں شروع کر دیں، جس میں پیش منظر میں تو وہ خود نہ ہوں، لیکن پس منظر میں ان کی طاقت برقرار رہے۔

ڈک سخوف ڈچ سیکرٹ سروس کے سابق سربراہ ہیں اور ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہے
ڈک سخوف ڈچ سیکرٹ سروس کے سابق سربراہ ہیں اور ان کا تعلق کسی سیاسی جماعت سے نہیں ہےتصویر: Ramon Van Flymen/ANP/dpa/picture alliance

اب آج منگل دوجولائی کے روز دی ہیگ کے نواح میں ہاؤس آف بوش نامی محل میں ڈچ بادشاہ ولّم آلیکسانڈر نے نئی حکومت کے ارکان کے طور پر جن وزراء اور سیکرٹریوں سے حلف لیا، ان میں گیئرٹ ولڈرز شامل نہیں تھے۔

لیکن اہم بات یہ بھی ہے کہ ولڈرز نئی ڈچ کابینہ کا حصہ تو نہیں ہیں، تاہم چار سیاسی جماعتوں پر مشتمل نئی ملکی حکومت کا زیادہ تر کنٹرول گیئرٹ ولڈرز ہی کے پاس ہے۔

ڈچ تاریخ کی آج تک کی سب سے زیادہ فار رائٹ حکومت

نیدرلینڈز میں آج سے اقتدار میں آنے والی نئی حکومت کی ایک اور خاص بات یہ ہے کہ یہ اس حد تک انتہائی دائیں بازو کی سوچ کی حامل ہے کہ اس سے زیادہ حد تک دائیں بازو کی کوئی حکومت آج تک نیدرلینڈز میں اقتدار میں نہیں آئی تھی۔

اسلام مخالف ڈچ سیاستدان کو دھمکی دینے پر پاکستانی کرکٹر کے خلاف کیس

اسی لیے سبھی خبر رساں اداروں نے نئے وزیر اعظم ڈک سخوف (Dick Schoof) کی قیادت میں آج حلف اٹھانے والی نئی حکومت کے لیے ''موسٹ فار رائٹ ڈچ گورنمنٹ‘‘ کی اصطلاح استعمال کی ہے۔

نئی حکومت کے بارے میں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جن تین سیاسی جماعتوں نے حکومت سازی کے لیے گیئرٹ ولڈرز کی قیادت میں فریڈم  پارٹی کے ساتھ مل کر شراکت اقتدار کا فیصلہ کیا، ان کی شرط یہ تھی کہ وہ صرف اسی صورت میں اس مخلوط حکومت میں شامل ہوں گی کہ خود ولڈرز کسی حکومتی عہدے پر فائز نہ ہوں۔

انتہائی دائیں بازو کے بہت متنازعہ سمجھے جانے والے عوامیت پسند ڈچ سیاست دان گیئرٹ ولڈرز
انتہائی دائیں بازو کے بہت متنازعہ سمجھے جانے والے عوامیت پسند ڈچ سیاست دان گیئرٹ ولڈرزتصویر: Sem Van Der Wal/ANP/dpa/picture alliance

زیادہ تر کابینہ ارکان ناتجربہ کار

وزیر اعظم ڈک سخوف کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے نہیں۔ وہ وزیر اعظم کے طور پر طویل عرصے تک اس عہدے پر فائز رہنے والے مارک رُٹے کے جانشین بنے ہیں، جن کا اسی سال اکتوبر میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے سیکرٹری جنرل کے عہدے پر فائز ہونا طے ہو چکا ہے۔

نئے وزیر اعظم کی طرح ان کی کابینہ کے زیادہ تر ارکان بھی ایسے ہیں، جنہیں ماضی میں کسی حکومتی عہدے پر فائز رہنے کا کوئی تجربہ نہیں ہے۔ یہ حقیقت بھی ایک وجہ ہے کہ بہت سے سیاسی تجزیہ کار اس نئی مخلوط حکومت کو ممکنہ طور پر ایک غیر مستحکم حکومت قرار دے رہے ہیں۔

ڈچ وزیر اعظم کے لیے نیٹو کا نیا سربراہ بننے کی راہ ہموار

نئی ڈچ حکومت میں شامل چار جماعتیں ولڈرز کی فریڈم پارٹی، مارک رُٹے کی پیپلز پارٹی فار فریڈم اینڈ ڈیموکریسی، مرکز سے دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والی نیو سوشل کنٹریکٹ پارٹی اور عوامیت پسند کسان شہری تحریک یا بی بی بی ہیں۔

جہاں تک نئی حکومت میں شامل جماعتوں میں سے کسی پارٹی کے سیاسی طور پر تجربہ کار ہونے کا تعلق ہے، تو وہ صرف سابق وزیر اعظم مارک رُٹے کی عوامی پارٹی برائے آزادی اور جمہوریت ہے، جو ماضی میں کئی برسوں تک مختلف مخلوط حکومتوں کا حصہ رہی ہے۔

سابق ڈچ وزیر اعظم  مارک رٹے جو اکتوبر میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل بن جائیں گے
سابق ڈچ وزیر اعظم مارک رٹے جو اکتوبر میں نیٹو کے سیکرٹری جنرل بن جائیں گےتصویر: Lex van Lieshout/ANP/IMAGO

ولڈرز کو کون کون سے مطالبات سے پیچھے ہٹنا پڑا؟

گیئرٹ ولڈرز نیدرلینڈز کے ایک بہت متنازعہ سیاست دان ہیں۔ وہ اسلام، مسلمانوں اور تارکین وطن کی کھل کر مخالفت کرنے سے کبھی نہیں ہچکچاتے۔ گزشتہ برسوں میں انہوں نے ایک سے زائد مرتبہ پیغمبر اسلام کے خاکوں کے مقابلوں اور نمائش کا اہتمام بھی کیا تھا۔

ولڈرز نے گزشتہ عام انتخابات سے پہلے کی سیاسی مہم میں ڈچ ووٹروں سے کہا تھا کہ وہ اقتدار میں آئے تو نیدرلینڈز یورپی یونین سے نکل جائے گا اور وہ ملک میں مسلمانوں کی مذہبی کتاب قرآن پر بھی پابندی لگا دیں گے۔

نیدرلینڈز: دائیں بازو کی جماعتیں حکومت سازی پر متفق

قومی انتخابات کے بعد نئی حکومت کی تشکیل میں سات ماہ سے زیادہ کا عرصہ اس لیے بھی لگا کہ الیکشن جیتے تو ولڈرز کی پارٹی نے تھے، لیکن اس کے پاس اکثریت نہیں تھی اور کوئی پارٹی ان کے موقف میں نرمی کے بغیر ان کے ساتھ اقتدار میں شامل ہونے کو تیار نہیں تھی۔

اس لیے خاص طور پر پچھلی قریب ایک سہ ماہی میں مخلوط حکومتی جماعتوں نے ورلڈرز کو ان کے انتہائی دائیں بازو کے کئی کٹر عوامیت پسندانہ مطالبات سے پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا۔ ان میں ایسے مطالبات بھی شامل تھے جنہیں اسلاموفوبیا اور انتہائی دائیں بازو کی بنیاد پرستی کے مظہر قرار دیا جاتا تھا۔

اب گیئرٹ ولڈرز ڈچ معاشرے میں قرآن پر پابندی لگانے اور نیدرلینڈز کے یورپی یونین سے نکل جانے کے اپنے مطالبات سے عملاﹰ پیچھے ہٹ گئے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے کہ نئی ڈچ حکومت کے دور میں نیدرلینڈز کی مہاجرین اور تارکین وطن سے متعلق سیاست مزید سخت ہو جائے گی۔

م م / ا ا (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)

کیا آپ کا وزیر اعظم ایسا کرے گا؟