1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

نئے بل کی کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں: صدیق الفاروق

Kishwar Mustafa10 جولائی 2012

پاکستانی قانون سازوں نے ایک نئے بل کی منظوری کے ذریعے سینیئر وزراء کو توہین عدالت کے الزام میں ان کے خلاف کارروائی سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/15UkF
Parlamentsgbäude in Islamabad Pakistanتصویر: AP

ایسے افراد کے خلاف توہین عدالت کے سلسلے میں کارروائی نہیں ہو سکے گی۔ اس اقدام کو نئے وزیر اعظم کو نا اہل قرار دیے جانے کے امکان سے محفوظ رکھنے کی کوشش کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔ دریں اثناء پاکستانی سپریم کورٹ نے وزیر اعظم راجہ پرویز اشرف کو جمعرات تک کا وقت دیا ہے کہ وہ اس بات کا عندیہ دیں کہ وہ سپریم کورٹ کا حکم مانتے ہوئے سوئس حکام سے پاکستانی صدر پر لگے کئی ملین ڈالر کی بدعنوانی کے کیسز کو دوبارہ سے شروع کرنے کا مطالبہ کریں گے۔

19 جون کو پاکستانی سپریم کورٹ نے اسپیکر قومی اسمبلی کی ایک رولنگ کو کالعدم کرتے ہوئے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے دیا تھا اور عدالتی فیصلے کے بعد وفاقی کابینہ بھی تحلیل ہو گئی ہے۔ سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے چھبیس اپریل کو یوسف رضا گیلانی کو توہین عدالت کا مرتکب پایا اور انہیں عدالت کی برخاستگی تک قید کی سزا سنائی تھی۔ اس فیصلے کے خلاف کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی، اس لیے ملکی آئین کے تحت یوسف رضا گیلانی چھبیس اپریل سے قومی اسمبلی کے رکن نہیں رہے تھے۔ عدالت کے مطابق وہ اسی تاریخ سے ملک کے وزیر اعظم بھی نہیں رہے تھے۔ گیلانی نے صدر آصف علی زرداری کے خلاف کرپشن کے مقدمات دوبارہ کھولنے سے انکار کر دیا تھا۔

Pakistan Premierminister Yousuf Raza Gilani Archivbild
19 جون کو سپریم کورٹ نے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو نا اہل قرار دے دیا تھاتصویر: AP

گزشتہ شب پاکستانی پارلیمان کے ایوان زیریں میں منظور کیے گئے اس بل میں کہا گیا ہے کہ صدر، وزیر اعظم اور سینئر وزراء توہین عدالت کے جرم کے مرتکب قرار نہیں دیے جا سکتے کیونکہ وہ ایسا اپنے عہدے کی ذمہ داری نبھانے کے لیے کرتے ہیں۔ تاہم اس بل کو پہلے پارلیمان کے ایوان بالا سے منظوری حاصل کرنا ہو گی، اُس کے بعد صدر مملکت اُس پر دستخط کریں گے اور پھر اس بل کو باقاعدہ قانون کی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔

Pakistan Asif Ali Zardari
زرداری پر کئی ملین ڈالر کی بدعنوانی کے کیسز ہیںتصویر: AP

پاکستانی اپوزیشن کی مرکزی پارٹی مسلم لیگ ن نے سابق وزیر اعظم نواز شریف کی سربراہی میں پارلیمان کی اس کارروائی کا بائیکاٹ کیا۔ پارٹی کے ترجمان صدیق الفاروق نے اس بل کی مذمت کرتے ہوئے کہا، ’یہ بل محض ایک شخص آصف علی زرداری کو جواب دہی سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ لہٰذا اس کی کوئی آئینی، قانونی اور اخلاقی حیثیت نہیں ہے‘۔

توہین عدالت کے پرانے قوانین منسوخ کر کے جو نیا قانون پارلیمان سے منظور کرانے کے لیے تیار کیا گیا ہے، اس کے مطابق آئین کی شق دو سو اڑتالیس کی ذیلی شق ایک کے تحت جن عوامی عہدے رکھنے والے اشخاص کو استثنیٰ حاصل ہے، ان کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی نہیں ہو سکے گی۔

km/mm(AFP)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید