1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

میڈیا سے محبت کے دعوے، بلاول بھٹو پر اعتبار کیا جا سکتا ہے؟

2 مارچ 2020

ایک ایسے وقت پر جب سندھ میں صحافی عزیز میمن کے قاتلوں کو تاحال قانون کے کٹہرے میں نہیں لایا جا سکا، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے لاہور میں میڈیا کے ساتھ اپنی محبت اور سپورٹ کا کھلے لفظوں میں اعلان کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/3YkIy
Munich Security Conference 2019 Bilawal Bhutto
تصویر: DW/Shamil Shams

پیر کے روز لاہور پریس کلب کے 'میٹ دی پریس‘ پروگرام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اگر آج جمہوریت موجود ہے تو اس میں صحافیوں کا خون پسینہ شامل ہے۔ ''آج آزادی صحافت اور جمہوریت پر ہر طرف سے حملے ہو رہے ہیں، میڈیا مالکان شاید ساتھ نہ دیں لیکن ورکنگ جرنلسٹ آج بھی جمہوریت کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑے ہیں وہ آخری دم تک لڑیں گے لیکن اس نئے پاکستان کو نہیں تسلیم کریں گے جہاں قلم کی آزادی نہ ہو۔‘‘

لاہور کے صحافیوں کے ساتھ گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب جنرل ضیاالحق نے ملک پر بدترین آمریت مسلط کی تھی تو بیگم نصرت بھٹو اور شہید بینظیر بھٹو کے ساتھ شانہ بشانہ قلم کے مزدور، صحافی اور پریس کلب کے اراکین کھڑے تھے اس لیے آج پیپلز پارٹی کی تیسری نسل آپ کے درمیان موجود ہے۔

بلاول بھٹو زرداری کے مطابق موجودہ حکومت کے دور میں جس تیزی کے ساتھ ملک میں سیسنر شپ میں اضافہ ہوا اس کے تحت ہونے والی گھٹن سیاسی کارکنان اور اپوزیشن کے ساتھ ساتھ صحافیوں، کیمرہ مین، پروڈیوسرز، میڈیا مالکان، بلاگرز اور سوشل میڈیا پر سرگرم بچوں پر بھی ہے۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہم ایک ایسا پاکستان تشکیل دینا چاہتے ہیں جہاں آزادی رائے ہو، جہاں تعمیری تنقید برداشت کی جا سکے، اس کے لیے ہمیں صحافی برادری کے ساتھ کی ضرورت ہے۔ اس لیے ہم پریس کلب کے اراکین، سول سوسائٹی کے نمائندوں کے ساتھ مل کر ایک پلیٹ فارم سے جمہوریت اور جمہوری آزادی کے لیے ایک آواز بلند کرنا چاہتے ہیں۔

Hamid Mir Pakistan
تصویر: privat

پاکستان کے سینئر صحافی حامد میر نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اس حد تک تو بات درست ہے کہ پاکستان میں میڈیا کو شدید ترین دباؤ کا سامنا ہے۔ حامد میر نے بتایا کہ گزشتہ برس انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کا جو انٹرویو کیا تھا اسے آن ائیر ہونے کے چند منٹ بعد ہی روک دیا گیا تھا، اسی طرح جب انہوں نے لائیو پروگرام میں مریم نواز کا ٹیلی فون پر موقف لینا چاہا تو لائیو پروگرام کرنے سے روک دیا گیا۔

حامد میر کا کہنا ہے کہ میڈیا کو حکومت، اپوزیشن، ریاستی اداروں اور غیر ریاستی عناصر سمیت کئی اطراف سے دباؤ کا سامنا ہے اور اس میں صرف تحریک انصاف کی حکومت ہی نہیں بلکہ سندھ میں برسر اقتدار پیپلز پارٹی کی حکومت بھی شریک ہے۔ حامد میر کے بقول پاکستان میں صحافیوں کے خلاف شاید سب سے زیادہ جھوٹے مقدمے صوبہ سندھ میں سندھی صحافیوں کے خلاف ہی درج کئے گئے ہیں، ان مقدمات میں دہشت گردی کے جھوٹے مقدمے بھی شامل رہے ہیں۔ حامد میر کے مطابق سندھ میں ایک صحافی کے خلاف سترہ مقدمے درج کئے گئے اور سندھ کے وزیر اطلاعات تحقیقات کروانے کے بعد یہ تسلیم کر چکے ہیں کہ یہ مقدمات جھوٹے ہیں، دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ میں ان جھوٹے مقدمات کا سندھی صحافی ہی نشانہ بن رہے ہیں۔ '' دراصل بات یہ ہے کہ اندرون سندھ سے تعلق رکھنے والے با اثر ارکان پارلیمنٹ صحافیوں کو مزارعے سمجھتے ہیں، اور ان کی آواز دبانے کے درپے رہتے ہیں۔ ‘‘

حامد میر کے مطابق  یہ تمام صورتحال سندھ حکومت کے نوٹس میں لائی جا چکی ہے اور بلاول بھٹو بھی اس صورتحال سے آگاہ ہیں۔ ان کے بقول، ''زیادہ بہتر ہوتا اگر سندھ حکومت صحافیوں سے محبت کے اظہار کی بجائے عملی اقدامات کرتی اور عزیز میمن کے قاتلوں کا بھی سراغ لگا کر انہیں قانون کے مطابق سزا دلواتی۔‘‘

Türkei Protest Pressefreiheit
تصویر: Getty Images/C. McGrath

سوشل میڈیا کے حوالے سے حال ہی میں کابینہ کی منظوری کے ساتھ جو قوانین سامنے لائے گئے، اس کے بارے میں کابینہ کے ایک سینئر وزیر کے حوالے سے حامد میر کا کہنا تھا کہ اس بارے میں کابینہ کے کئی ارکان اور وزیر اعظم کو بھی پوری طرح اعتماد میں نہیں لیا گیا تھا، وزیر اعظم اس سے لاعلم تھے۔ حامد میر نے اس پر خفگی کا اظہار کیا ہے،'' یہ عجیب بات ہے کہ حکومت کو بھی نہیں پتہ کہ ان کے نام پر نوٹیفیکیشن کون جاری کروا رہا ہے۔ ‘‘

حامد میر کا خیال ہے کہ حکومت سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے کی غرض سے سامنے لائے جانے والے ان قوانین کو واپس لے لے گی۔

سینئر تجزیہ نگار امتیاز عالم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ پاکستان میں میڈیا ریاستی حکام کے ہاتھوں مکمل طور پر یرغمال بنا ہوا ہے، اور اظہار کی آزادیاں ایک ایک کرکے سلب کی جارہی ہیں۔ ایک تہائی سے زیادہ پاکستانی صحافی اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں، ان حالات میں انسانی، جمہوری اور صحافتی حقوق کے لیے مل جل کر جدوجہد کرنا ہو گی۔ امتیاز عالم کو یقین ہے کہ اگر پاکستانی لوگ اٹھ کھڑے ہوئے تو آزادی اظہار کی پابندیاں باقی نہیں رہ سکیں گی۔

بلاول بھٹو زرداری کا ڈی ڈبلیو اردو کے ساتھ مکمل انٹرویو

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں