1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملا برادر ابھی تک پاکستانی حراست میں ہے، افغان طالبان کا دعویٰ

عاطف بلوچ9 اکتوبر 2013

افغان طالبان نے دعویٰ کر دیا ہے کہ پاکستان نے ان کے سابق نائب رہنما ملا عبدالغنی برادر کو ابھی تک حراست میں رکھا ہوا ہے۔ حکومت پاکستان کے بقول اس شدت پسند کمانڈر کو رہا کر دیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/19wuX
تصویر: REUTERS/Yan Zhonghua/Xinhua

خبر رساں ادارے اے پی نے افغان طالبان کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملا عبدالغنی برادر ابھی تک پاکستانی جیل میں قید ہیں جبکہ اسلام آباد حکومت نے اس دعوے کی فوری طور پر تردید کر دی ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کی طرف سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا ہے، ’’ان ( برادر) کے رات دن اب بھی جیل میں گزر رہے ہیں، جہاں انہیں صحت کے حوالے سے پریشان کن حالات کا سامنا اور ان کی طبعیت بگڑتی جا رہی ہے۔‘‘ اس بیان میں مجاہد نے برادر کی فوری رہائی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔

ادھر پاکستانی حکام کے بقول برادر کو گزشتہ ماہ رہا کر دیا گیا تھا۔ ایک اعلیٰ سکیورٹی اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اے پی کو بتایا ہے کہ ملا برادر آزاد ہے اور وہ جہاں چاہے جا سکتا ہے تاہم سکیورٹی وجوہات کے باعث اسے ایک محفوظ مقام پر رکھا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہر وقت پاکستانی سکیورٹی گارڈز رہتے ہیں۔ اس اہلکار نے مزید کہا کہ ملا برادر کی حفاظت کی خاطر ہی اسے ایک ایسا ’محفوظ مقام‘ فراہم کیا گیا، جہاں عام عوام کی رسائی نہیں ہے۔

Afghanistans Präsident Hamid Karzai
افغان صدر حامد کرزئی ے بقول ملا برادر کو اگرچہ رہا کر دیا گیا ہے تاہم اسے ابھی مکمل طور پر آزادی نہیں ملی ہےتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

پیر کے دن افغان صدر حامد کرزئی نے کہا تھا کہ ملا برادر کو اگرچہ رہا کر دیا گیا ہے تاہم ’اسے ابھی مکمل طور پر آزادی نہیں ملی ہے‘۔ کابل میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے حامد کزرئی کا کہنا تھا: ’’ہم جانتے ہیں کہ اس (ملا برادر) کے گھر والوں نے اس سے رابطہ کیا ہے اور ہم بھی اس سے رابطہ کرنے یا اس کا ٹیلی فون نمبر حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ اسے امن مذاکرات میں شامل کیا جا سکے۔‘‘

ملا عبدالغنی برادر کو 2010ء میں پاکستانی بندرگاہی شہر کراچی سے گرفتار کیا گیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ اس طالبان رہنما کو حراست میں لینے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے کابل حکومت کے ساتھ خفیہ طور پر مذاکرات کا سلسلہ شروع کر دیا تھا۔ تب سے ہی افغان حکومت اس اہم طالبان رہنما کی رہائی کے مطالبے جاری رکھے ہوئے ہے۔

اگرچہ افغان حکام سمجھتے ہیں کہ افغانستان میں قیام امن کے لیے طالبان کے ساتھ جاری رابطوں میں ملا برادر اہم کردار ادا کر سکتا ہے تاہم دوسری طرف ایسا خیال بھی پایا جاتا ہے کہ افغان امن عمل میں شاید ملا برادر کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتا ہے۔ ملا برادر کی رہائی کی مخالفت کرنے والی واشنگٹن حکومت کو یہ خدشہ بھی لاحق ہے کہ وہ آزادی کے بعد ایک مرتبہ پھر جنگی کارروائیوں پر اتر سکتا ہے۔

ایسے امکانات بھی موجود ہیں کہ ایک ایسے وقت میں ملا برادر افغان طالبان کے حوصلے بلند کرنے کا باعث بن سکتا ہے، جب افغاستان میں نیٹو کا فوجی مشن اپنے اختتام کو پہنچنے والا ہے۔ خبررساں اے پی نے امریکی اور پاکستانی سکیورٹی حکام کے حوالے سے بتایا ہے کہ واشنگٹن حکومت نے پاکستانی حکام کو کہا ہے کہ ملا برادر کو مکمل طور پر آزاد کرنے کے بجائے اسے نظر بند رکھا جائے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا ملا برادر کو امریکی ہدایات پر ہی ہائی سکیورٹی میں رکھا گیا ہے یا اس کی کوئی اور وجہ ہے۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید