1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

مشرق وسطیٰ تشدد کی آگ کے خطرات سے دوچار

رائنر سُولش/ کشور مصطفیٰ2 جولائی 2014

اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو نے تین لڑکوں کی ہلاکت کا الزام حماس پر عائد کرتے ہوئے سخت کارروائی کی دھمکی دے رکھی ہے۔

https://p.dw.com/p/1CUVb
تصویر: Reuters

غزہ میں فلسطینی شہریوں کو اجتماعی سزا نہیں ملنی چاہیے تاہم اس کے خطرات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔ اسرائیل نے حبرون کے قریب تین یہودی لڑکوں کے قتل کے بعد انتقامی کارروائی کا اعلان کر دیا ہے۔ غیظ وغضب اور برہمی بجا ہے اور اس کی وجہ بھی سمجھ میں آتی ہے تاہم جنگ سے اجتناب برتا جانا چاہیے، یہ کہنا ہے ڈوئچے ویلے کے تبصرہ نگار رائنر سولش کا۔

زبانی لے دے تو کافی ہو چُکی ہے۔ اسرائیلی سربراہ حکومت بینجمن نیتن یاہو تین یہودی لڑکوں اور اُن کے حامیوں کے قاتل کو درندہ اور انسانی شکل میں حیوان قرار دے چُکے ہیں۔ ساتھ ہی اس کے سنگین نتائج کی دھمکی بھی دے چُکے ہیں۔ نیتن یاہو کے بقول حماس اس واقعے کی ذمہ دار ہے اور اُسے اس کا حساب چُکانا ہوگا۔ اُدھر حماس نے جوابی دھمکی میں کہا ہے کہ اگر اسرائیل نے غزہ پٹی کے وسیع علاقے پر حملے کیے تو وہ پورے خطے کو جہنم بنا دے گی۔ حقیقت میں ایسا ہی نظر بھی آ رہا ہے، طرفین کے مابین حالات ناقابل تلافی حد تک بگڑ چُکے ہیں۔ کوئی بھی یقین نہیں کر رہا ہے کہ معاملہ پیر اور منگل کی درمیانی شب تین یہودی لڑکوں کی لاشیں برآمد ہونے کے بعد اسرائیل کی طرف سے غزہ پر 30 فضائی حملوں اور حماس کے ایک کارکُن کو ہلاک کیے جانے تک ہی محدود رہے گا۔ انتقام کا جذبہ بہت زیادہ بھڑک چُکا ہے اور اس کا مطالبہ، خاص طور سے نیتن یاہو کے روایتی ووٹ بینک یعنی یہودی آبادکاروں کی تحریک کی طرف اتنا شدید ہے کہ نیتن یاہو علامتی رد عمل تک ہی محدود نہیں رہ سکتے۔ اگر وہ چاہیں بھی تو ایسا نہیں کر سکتے کیونکہ اُن پر داخلی دباؤ بہت زیادہ ہے۔

Zusammenstöße in Jerusalem 02.07.2014
اسرائیل کی طرف سے غزہ پر 30 فضائی حملے ہو چُکے ہیںتصویر: Reuters

قتل کا کوئی جواز نہیں

اسرائیل کی طرف سے دباؤ اور غیظ و غضب کا اظہار قابل فہم ہے۔ تین یہودی ٹین ایجرز اور عام شہریوں کا قتل سنگین جُرم ہے اور اس کا کوئی جواز نہیں بنتا۔ نہ تو اسرائیل کی یہودی آبادکاری کی جارحانہ سیاست نہ ہی فلسطینیوں کے خلاف ہونے والے انسانی حقوق کی پامالی کو اخلاقی طور پر وجہ بنا کر پیش کیا جا سکتا ہے۔ یہ بات طے ہے کہ یہ کارروائی ایک بھیانک قتل تھا اور رہے گا جو مبینہ طور پر فلسطینی انتہا پسندوں کا کام ہے، جن کا بنیادی مقصد صدیوں سے اسرائیل اور فلسطین کے مابین پائے جانے والے تنازعے کو مزید طول دینا اور اسے برقرار رکھنا ہے۔ اس امر کو ملحوظ رکھا جانا چاہیے کہ حماس اپنی تمام تر نفرت آمیز بیان بازیوں کے باوجود اسرائیل کے ساتھ رابطے میں رہنا چاہتا ہے اور اسرائیل اب تک کوئی ثبوت پیش نہیں کر سکا ہے۔

#

Zusammenstöße in Jerusalem 02.07.2014
اسرائیل نے حماس کو سخت انتقام کی دھمکی دے رکھی ہےتصویر: Reuters

یہودی لڑکوں کے قتل کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے، ہمیں کبھی بھی اس کا علم نہیں ہو سکے گا۔ جب تک غزہ پر اسرائیلی فوجی حملے ہوتے رہیں گے اور زیادہ سے زیادہ فلسطینی شہری اس کا شکار ہو کر ہلاک ہوتے رہیں گے اور دوسری طرف سے اسرائیلی رہائشی علاقوں پر راکٹ برستے رہیں گے، تب تک کوئی بھی اس بارے میں سوال نہیں اُٹھائے گا۔

مشرق وسطیٰ میں تشدد کی آگ کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ فلسطینی عوام میں پائی جانے والی احساس محرومی اور خود کے خلاف ہونے والی زیادتیوں کے سبب نفرت ہے۔ فلسطینی عوام روز بروز ابتر حالات کا سامنا کر رہے ہیں اور ان کی صورتحال ناگفتہ بہ ہے۔ اس سب کا قصور وار تنہا اسرائیل نہیں ہے تاہم اس صورتحال کی ایک بڑی ذمہ داری اُس پر عائد ہوتی ہے

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید