1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

عمران خان کی گرفتاری، کیا مؤثر احتجاجی مہم چلے گی؟

5 اگست 2023

پاکستان میں کئی مبصرین کا خیال ہے کہ توشہ خانہ کیس میں سزا ملنے اور گرفتار کیے جانے کے باوجود عوامی سطح پر پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران کی مقبولیت میں اضافہ ہو سکتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4UoOv
پاکستان کے سابق وزیر اعظم، عمران خان
تصویر: Mohsin Raza/REUTERS

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بعض مبصرین کا کہنا تھا کہ یہ سزا اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے بعد معطل بھی ہو سکتی ہے لیکن موجودہ حالات میں یہ آسان نہیں ہوگا۔ اسلام آباد کی ایک عدالت نے توشہ خانہ کیس میں  پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کو تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنائی تھی۔

کیا عمران خان کی سزا معطل ہو سکتی ہے؟

سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر سردار لطیف کھوسہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ توشہ خانہ کیس میں عمران خان کے خلاف آنے والا فیصلہ قانونی طور پر بہت کمزور ہے اور یہ سزا تین دنوں میں ختم ہو جائے گی۔ ان کے بقول یہ اسی طرح کی سزا ہے جیسی ماضی میں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو سمیت کئی لیڈروں کو سنائی گئی تھی اور پھر اسے ختم کرنا پڑا تھا۔

دوسری طرف قانون دان اور تجزیہ کار منیب فاروق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ عمران خان کو ہونے والی سزا کو تین پہلوؤں سے دیکھا جا سکتا ہے۔ ایک ان پر لگنے والے الزامات جو کافی مضبوط ہیں اور ان کی بنیاد خود خان صاحب کی غلطیاں ہیں جن کے شواہد موجود ہیں۔

پاکستان تحریک انصاف کے کارکن پارٹی پرچم کے ساتھ احتجاج کرتے ہوئے۔
پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں پر امن احتجاجی مظاہروں کی کال دی ہے اور کئی شہروں سے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں لیکن سیاسی ماہرین کی بڑی تعداد کو یقین ہے کہ حکومت ان احتجاجی مظاہروں پر قابو پا لے گی۔ تصویر: Arif Ali/AFP/Getty Images

منیب فاروق کی رائے میں توشہ خانہ کیس میں عمران خان کا دفاع بہت کمزور تھا۔ ان کے وکلا کا زیادہ تر فوکس تکنیکی امور پر رہا اسی لیے ان کے وکیل تاخیری حربے استعمال کرتے رہے۔ ڈیڑھ ماہ کے قریب ان کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے حکم امتناعی بھی میسر رہا اور آج ہفتے کے روز بھی بار بار بلانے پر ان کے وکیل عدالت نہیں پہنچے۔

ای سی پی کا پی ٹی آئی کو نوٹس: پارٹیوں میں جمہوریت زیر بحث

خفیہ ایجنسیوں کے افسران کی شناخت ظاہر کرنے پر قید کی سزا

منیب فاروق سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اعلیٰ عدالتوں میں اپیل کے لیے عمران خان کے وکلا کی اس دلیل کو اہمیت ملے گی کہ ان کو پوری طرح نہیں سنا گیا، لیکن اس وقت جو حالات دکھائی دے رہے ہیں ان میں عمران خان کو اپیل میں ریلیف ملنا آسان نہیں ہوگا۔ انہوں نے تسلیم کیا کہ پاکستان جیسے ملکوں میں ریاست کا دباؤ ایک ایسی حقیقت ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکت: ’’اگر عام حالات ہوتے تو یقینا ابتدائی پیشیوں پر ہی انہیں ریلیف مل جاتا لیکن اس وقت ملک میں عام حالات نہیں ہیں۔‘‘

ایک سوال کے جواب میں منیب فاروق نے بتایا کہ توشہ خانہ کے حوالے سے ایک اپیل اب بھی اعلیٰ عدالت میں زیر التوا ہے، اگر اس کا فیصلہ عمران کے حق میں آ گیا تو پھر  اس فیصلے کی کیا حیثیت ہوگی اور یہ صورتحال بھی کافی منفرد نوعیت کی ہوگی۔

عمران خان کی سزا کے سیاسی اثرات

سینیئر صحافی خالد فاروقی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس سزا سے ہو سکتا ہے کہ عمران خان کو انتخابی سیاست میں کافی دھچکہ لگے، کیونکہ ان کی سیاست ان کے گرد ہی گھومتی رہی ہے اور ان کی غیر موجودگی میں ان کی پارٹی میں کوئی قد آور شخصیت (جسے عوام ان کے متبادل کے طور پر قبول کریں) موجود نہیں ہے: ’’ہو سکتا ہے کہ ہوا کے مخالف رخ کی وجہ سے اچھے امیدوار پی ٹی آئی کا ٹکٹ نہ لیں لیکن عوامی سطح پر ان کے لیے ہمدردی کی لہر ضرور پیدا ہوگی اور ان کے حمایتیوں کا غم و غصہ، ان میں نیا جوش اور توانائی پیدا کر سکتا ہے۔‘‘ خالد فاروقی کے  بقول، ’’ماضی میں بھی ہم نے دیکھا ہے کہ قید و بند کی صعوبتوں سے سیاسی پارٹیاں ختم نہیں ہوتیں بلکہ عوام ان لیڈروں کی قربانیوں کا اعتراف کرتے رہے ہیں۔‘‘

عمران خان گرفتار، عوام سے احتجاج کی اپيل

منیب فاروق البتہ اس رائے سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کے خیال میں پاکستان تحریک انصاف پہلے ہی منتشر ہو چکی ہے: ’’شاہ محمود قریشی کے لیے پارٹی کو متحد رکھنا، لے کر چلنا اور پھر انتخابی مہم چلا کر الیکشن میں حصہ لینا آسان نہیں ہوگا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پی ٹی آئی عمران کے بغیر کچھ نہیں۔‘‘

کیا عمران کے بغیر ہونے والے الیکشن کی کوئی ساکھ ہوگی؟

تجزیہ کار سلمان عابد کے مطابق اس سزا کے بعد مسلم لیگ ن کو وہ ’’لیول پلینگ فیلڈ‘‘ تو مل گیا ہے جس کا وہ عرصے سے مطالبہ کرتی آ رہی تھی، لیکن ان کے خیال میں عمران کو عجلت میں کیے گئے فیصلوں کے ذریعے زبردستی راستے سے ہٹا کر کروائے جانے والے الیکشنز کی ساکھ پر بہت سوال اٹھیں گے۔ سلمان عابد کے بقول اس فیصلے کی حیران کن بات یہ ہے کہ یہ فیصلہ آنے سے پہلے ہی لوگوں کو یہ معلوم ہو چکا تھا کہ یہ فیصلہ آ رہا ہے اور اس بارے میں سوشل میڈیا پر اسے شیئر بھی کیا جا رہا تھا۔

زنجیریں اترتی نہیں توڑنا پڑتی ہیں۔ عمران خان کا پیغام

پی ٹی آئی کی طرف سے عمران خان کی گرفتاری سے پہلے ریکارڈ کیا جانے والا ان کا ایک ویڈیو پیغام ان کی گرفتاری کے بعد جاری کیا گیا ہے۔ اس پیغام میں عمران خان نے پاکستان کے شہریوں سے مخاطب ہو کر کہا ہے، ’’ جب تک میرا یہ پیغام آپ تک پہنچے کا مجھے یہ لوگ گرفتار کر چکے ہوں گے اور میں جیل میں ہوں گا اور میری آپ سے یہی اپیل ہے کہ آپ نے گھروں میں چپ کر کے نہیں بیٹھنا۔ میں یہ جو سب کچھ کر رہا ہوں یہ اپنے لیے نہیں بلکہ ملک قوم اور عوام کے لیے کر رہا ہوں۔‘‘ عمران خان نے عوام سے کہا کہ وہ انسانی حقوق، انصاف کے نظام اور آزادی کے لیے پر امن جدو جہد کریں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ زنجیریں اترتی نہیں انہیں توڑنا پڑتا ہے۔ 

زمان پارک لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر موجود سکیورٹی اہلکار۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک کے اہم شہروں میں سکیورٹی میں اضافہ کر دیا گیا ہے۔تصویر: Arif Ali/AFP

کیا مؤثر احتجاجی مہم چلے گی؟

اگرچہ پاکستان تحریک انصاف نے ملک بھر میں پر امن احتجاجی مظاہروں کی کال دی ہے اور کئی شہروں سے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات بھی مل رہی ہیں لیکن سیاسی ماہرین کی بڑی تعداد کو یقین ہے کہ حکومت ان احتجاجی مظاہروں پر قابو پا لے گی۔ 
بیشتر سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ نو مئی کے بعد پی ٹی آئی کے کئی لیڈر گرفتار ہیں، ان کی لسٹیں بن چکی ہیں، عام کارکن پہلے ہی خوف زدہ ہیں اس لیے کوئی بہت بڑی احتجاجی مہم چلنے کا امکان نہیں ہے۔ تجزیہ نگار سلمان عابد کے بقول سوشل میڈیا پر احتجاج پہلے ہی شروع ہو چکا ہے، اوورسیز پاکستانی بھی اس پر احتجاج کریں گے اس کے علاوہ خیبر پختونخوا کے بعض علاقوں سے بھی اس فیصلے کے خلاف احتجاجی آوازیں اٹھ سکتی ہیں۔