1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’طالبان سے آپ خود لڑیں‘

کشور مصطفیٰ18 مئی 2015

پاکستان کے قبائلی علاقوں میں طالبان کےخلاف فوجی آپریشن کے سبب اندرونِ ملک نقل مکانی پرمجبور ہزاروں افراد اپنے گھروں کو لوٹنے کے خواہش مند ہیں تاہم واپسی کی شرط یہ ہو گی کہ مستقبل میں طالبان کےساتھ انہیں ’خود لڑنا‘ ہوگا۔

https://p.dw.com/p/1FRJX
تصویر: Reuters

دہشت گردی کے خلاف حالیہ جنگ کا ایک انوکھا رُخ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ 2001 ء میں افغانستان میں طالبان دور کے خاتمے کے بعد پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین نے عسکریت پسندوں کا اپنے ہاں خیر مقدم کیا یا کسی حد تک وہ اپنے علاقے کو گلوبل جہادیوں کی مہم کا گڑھ بنانے پر مجبور تھے۔ پاکستان کا قبائلی علاقہ القاعدہ اور حقانی نیٹ ورک سے تعلق رکھنے والے جنگجوؤں اور یورپی کارآموز عسکریت پسندوں کی آماجگاہ بن گیا اور ان عسکریت پسندوں کے خلاف امریکی کارروائی پاکستان کے قبائلی علاقے پر امریکی ڈرون حملوں کی شکل میں عمل میں لائی گئی۔

پاکستانی فوجی آپریشن

گزشتہ جون سے پاکستان کے شمال مغربی علاقے شمالی وزیرستان میں پاکستانی فوج کا آپریشن جاری ہے۔ اس آپریشن کے لیے فوج نے ہزاروں قبائلیوں کو اُن کے علاقوں سے نکال دیا اور وہ آج تک اپنے اہل خانہ کے ساتھ کیمپوں میں زندگی بسر کر رہے ہیں یا انہوں نے قبائلی علاقے میں سر چھپانے کے لیے کرائے پر کوئی عارضی قیام گاہ کرایے پر لے رکھی ہے۔ ملک خان مرجان شمالی وزیرستان کے قبائلی الائنس کے سربراہ ہیں اور اب وہ بےتابی سے اپنے گھر لوٹنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں،" ہمیں معلوم ہے کہ وہاں ہر چیز تباہ و برباد ہو چُکی ہے۔ بازار، گھر، اسکول، مدرسے سب ہی کچھ نیست و نابود ہو چُکا ہے"۔ ملک خان مرجان اپنے علاقے، اپنے گھر لوٹنے کے لیے بے چین ہیں تاہم وہ کہتے ہیں،"ہمیں وہاں کے اصل حالات، وہاں کے زمینی حقائق کا کچھ علم نہیں"۔ پاکستانی حکام کے مطابق قبائلی علاقے میں 67 ہزار گھر مکمل طور پر تباہ ہو چُکے ہیں تاہم اس علاقے میں آنے والی تباہی کے پیمانے کے بارے میں آزاد ذرائع سے کوئی اندازہ سامنے نہیں آیا ہے۔

Pakistanische Soldaten Offensive in Waziristan Archiv Juli 2014
وزیرستان میں فوجی آپریشنتصویر: AFP/Getty Images/A. Qureshi

حکومت پاکستان نے عالمی برادری سے ملک کے تباہ شدہ قبائلی علاقے کی تعمیر نو اور وہاں کے بے گھر ہو جانے والے شہریوں کو دوبارہ سے بسانے کے عمل پر آنے والے اخراجات کو مد نظر رکھتے ہوئے 800 ملین ڈالر کی امداد کی اپیل کر رکھی ہے۔ پاکستان کے قبائلی علاقے کی آبادی 4.6 ملین ہے ان میں سے کم از کم 2 ملین افراد فوجی آپریشن کے سبب بے گھر ہو چُکے ہیں۔

واپسی کی پیش کش

سرکاری طور پر اندرونِ ملک در بدر ہونے والے شہریوں کو مارچ کے ماہ سے واپس اپنے گھروں کو جانے کی اجازت دے دی گئی ہے تاہم یہ عمل وقت طلب ہے اور اسے مکمل ہونے میں کم از کم دو سال کا عرصہ لگ جائے گا۔ دریں اثناء شمالی وزیرستان کی طرف قریب 300 خاندان لوٹ چُکے ہیں تاہم اس واپسی کے لیے ان باشندوں کو خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت کی طرف سے تشکیل کردہ ایک ’ کوڈ آف کنڈکٹ‘ یا ایک ’ ضابطہ اخلاق‘ پر دستخط کرنا پڑے۔

اس ضابطے میں کہا گیا ہے کہ قبائلی پاکستان کے ساتھ اپنی ’ وفاداری کا وثوق کیساتھ یقین دلائیں اور گزشتہ دہائی کے دوران قبائلی علاقوں میں جہادیوں کے پھیلاؤ کی اپنی ذمہ داریوں کو تسلیم کریں‘۔ اس ’ ضابطہ اخلاق‘ کے تحت قبائلیوں کو اس امر کا وعدہ کرنا ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی عسکریت پسند کو چاہے وہ ’ ملک کے اندر سے ہو یا بیرون ملک سے‘ شمالی وزیرستان کو دہشت گردانہ کارروائی کے لیے استمال کرنے کی اجازت نہیں دیں گے۔

Pakistan Massenflucht aus Nord-Waziristan vor Offensive gegen Islamisten
اندرون ملک بے گھر ہونے والے ہزاروں باشندے کسمپرسی کی حالت میںتصویر: A Majeed/AFP/Getty Images

قبائلیوں کو ’ قومی سلویشی‘ نامی ایک 40 رُکنی ملیشیا تشکیل دینا ہوگی، جو علاقے میں کسی بھی جہادی کو پناہ دینے سے انکار کر دے گا اور اس پر لازم ہو گا کہ یہ دشمن کی نقل و حرکت کے بارے میں فوری طور سے رپورٹ دے گا۔

اس معاہدے میں یہ شق بھی شامل ہے کہ اگر کوئی قبیلہ اپنی مذکورہ ذمہ داریاں نبھانے میں ناکام ہوتا ہے تو حکومت پاکستان کو اس علاقے میں ہر قسم کے آپریشن کی اجازت ہوگی۔ اس دستاویز میں مزید یہ بھی شامل ہے کہ ایسے کسی آپریشن کے نتیجے میں ہونے والے ممکنہ نقصانات کی ذمہ داری قبیلے پر عائد ہوگی اور اس قبیلے کو ان نقصانات کے ازالے کا حکومت سے مطالبہ کرنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہوگا۔