1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی طالبان کے خلاف ’بڑی‘ فضائی اور زمینی کارروائی

امتیاز احمد15 مئی 2015

پاکستانی حکام کے مطابق فوج نے شمالی وزیرستان میں طالبان کے آخری مضبوط گڑھ میں ’بڑی‘ زمینی اور فضائی کارروائی شروع کر دی ہے۔ وادی شوال کے گھنے جنگلات میں پاکستانی طالبان کے محفوظ ٹھکانے ہیں۔

https://p.dw.com/p/1FQQN
Pakistan Armee Offensive gegen Taliban Symbolbild Übung
تصویر: Getty Images/AFP/SS Mirza

پاکستانی حکام کے مطابق ملکی فوج نے شمال مغربی قبائلی علاقے شمالی وزیرستان کے علاقے شوال کی طرف پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ بتایا گیا ہے کہ شوال کے علاقے میں نہ صرف طالبان کے مضبوط ٹھکانے موجود ہیں بلکہ یہ ہمسایہ ملک افغانستان میں اسمگلنگ کا مرکزی راستہ بھی ہے۔ نیوز ایجنسی روئٹرز نے پاکستان میں اپنے چار خفیہ ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ جمعے کی صبح ہی پاکستانی جنگی طیاروں نے بمباری شروع کر دی تھی، جس کے نتیجے میں چھ سے پندرہ عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں، تاہم ان ہلاکتوں کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو پائی ہے۔

ایک سرکاری عہدیدار کا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر نیوز ایجنسی روئٹرز سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’شوال کے پہاڑوں پر طالبان اور ان کے اتحادیوں کے خلاف بڑی کارروائی شروع کر دی گئی ہے۔‘‘

پاکستانی فوج نے گزشتہ برس جون میں عسکریت پسندوں کے مرکز سمجھے جانے والے علاقے شمالی وزیرستان میں آپریشن ضرب عضب کا آغاز کیا تھا لیکن وادی شوال کا کنٹرول ابھی تک طالبان کے پاس تھا اور وہ اسے پاکستانی فوج پر حملوں کے لیے لانچنگ پیڈ کے طور پر استعمال کرتے آئے ہیں۔ اُدھر طالبان کی طرف سے پاکستانی فوج کی اس کارروائی کے بارے میں ابھی تک کوئی بیان سامنے نہیں آیا ہے۔

علاقے کے مقامی رہائشیوں نے بتایا ہے کہ پاکستانی فوجی شمال اور جنوب کی جانب سے اس علاقے میں پہنچ رہے ہیں۔ شوال کے علاقے میں ایک ٹیلی فون آپریٹر زین اللہ کا نیوز ایجنسی سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’ فوجیوں اور ہتھیاروں سے بھری ہوئی سینکڑوں فوجی گاڑیاں شوال کی طرف جا رہی ہیں۔ زین اللہ کا کہنا تھا کہ علاقے میں جگہ جگہ رکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں، جس کی وجہ سے نقل و حرکت انتہائی محدود ہو کر رہ گئی ہے۔ علاقے میں مکمل طور پر کرفیو نافذ ہے اور ٹیلی فون لائینیں بھی کاٹی جا رہی ہیں۔

متعدد پاکستانی فوجی عہدیداروں نے بتایا ہے کہ پاکستان نے افغانستان سے بھی مدد طلب کی ہے تاکہ عسکریت پسندوں کو افغانستان میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔ اس سلسلے میں افغان حکومت کی طرف سے کسی بھی قسم کا تعاون دو طرفہ اعتماد سازی کے لیے اہم ثابت ہو سکتا ہے۔ ایک رہائشی کا کہنا تھا کہ طالبان اور فوج کے مابین فائرنگ کا تبادلہ جاری ہے اور خدشہ ہے کہ شہری آبادی علاقے میں پھنس کر رہ جائے گی۔ اس شہری نے کہا ، ’’ہم خوف کا شکار ہیں، خاص طور پر ہمارے بچے خوف زدہ ہیں۔ہم علاقہ چھوڑ کر کسی محفوظ مقام پر منتقل ہونے کی تیاری کر رہے ہیں کیونکہ گزشتہ رات مسلسل راکٹ فائر کیے جاتے رہے ہیں۔‘‘