1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

شام کی خانہ جنگی میں لبنان کی شمولیت کی نشاندہی

Kishwar Mustafa25 مئی 2013

مغربی شام کے علاقے القصیر میں لبنان کی طرف سے شیعہ عسکریت پسند گروپ حزب اللہ کے سینکڑوں جنگجوؤں کی مداخلت سے شامی حکومت کا غلبہ دکھائی دے رہا ہے۔

https://p.dw.com/p/18dsK
تصویر: STR/AFP/Getty Images

اس علاقے کو پڑوسی ملک لبنان سے شامی باغیوں کے خلاف لڑنے والے رضا کاروں اور ہتھیاروں کی سپلائی کے ضمن میں غیر معمولی اہمیت حاصل ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس نے آج ہفتے کو القصیر میں ہونے والی گھمسان کی جنگ کو اسد حکومت کے خلاف بغاوت کے آغاز سے اب تک کی شدید ترین جھڑپیں قرار دیا ہے۔

شام کے سرکاری میڈیا کے مطابق شامی صدر بشار الاسد کی فورسز کےساتھ لبنانی ملیشیا گروپ حزب اللہ کی مشترکہ کارروائی میں آج القصیر میں باغیوں کو شکست کا سامنا ہوا ہے اور اسد کی فورسز تیزی سے اس علاقے کو اپنے قبضے میں لے رہی ہیں۔ مبصرین کے مطابق القصیر اسد فورسز کے لیے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ علاقہ دمشق اور بحر روم سے متصل ساحلی علاقوں کے درمیان شام کے لیے ایک کوریڈور کی حیثیت رکھتا ہے اور اس علاقے پر غلبہ اسد حکومت کے لیے بہت اہم ہے۔ سیریئن آبزرویٹری کے مطابق آج ہفتے کو القصیر سے بھاری شیلنگ، راکٹ اور مارٹر گولہ باری کی شدید آوازیں لبنانی سرحدوں تک سنائی دیں۔

Syrien Kämpfe in Kusair Qusayr
القصیر میں گھمسان کی جنگتصویر: picture-alliance/dpa

اُدھر آج ہفتے کی سہ پہر حزب اللہ کے چیف حسن نصراللہ نے جنوبی لبنان سے اسرائیل کے 22 سالہ قبضے کے بعد مئی سن 2000 میں ہونے والے انخلاء، جسے حزب اللہ اپنی ایک بڑی عسکری فتح سمجھتا ہے، کی یاد میں منائے جانے والے دن کے موقع پر ایک تقریر کی۔ شام میں بغاوت کے آغاز سے اب تک کی حسن نصراللہ کی یہ پہلی تقریر ہے جو انہوں نے شام کی خانہ جنگی میں لبنان کی مداخلت کی واضح نشاندہی کے وقت کی ہے۔

آج القصیر میں ہونے والی جھڑپوں میں کم از کم چار افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ اس کی تصدیق ایک لبنانی اہلکار نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر کی ہے۔ اس طرح ایک ہفتے کے اندر ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد 29 ہو گئی ہے جس میں تین لبنانی فوجی بھی شامل ہیں۔ اس اثناء میں 200 سے زائد کے زخمی ہونے کی اطلاع ہے۔

اُدھر سعودی وزیر خارجہ پرنس سعود الفیصل نے آج ہفتے کو ایک بیان میں کہا کہ شامی بحران کے حل کے لیے مجوزہ امن مذاکرات میں شامی صدر بشار الاسد کو حصہ نہیں لینا چاہیے۔ اُن کا کہنا تھا،’ ہم شامی عوام کی خواہش کا ساتھ دیں گے جس نے واضح طور پر یہ کہ دیا ہے کہ وہ امن مذاکرات میں صدر اسد اور دیگر ایسے عناصر جن کے ہاتھ شامی باشندوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں، کا کوئی کردار دیکھنا نہیں چاہتے‘۔

Syrien Soldaten in Kusair Qusayr
حیدریا میں شامی فوج کا گشتتصویر: JOSEPH EID/AFP/Getty Images

سعودی عرب کا شمار اُن خلیجی ممالک میں ہوتا ہے جن پر اسد حکومت کا الزام ہے کہ وہ 2011 ء میں امن احتجاجی مظاہروں کی شکل میں شروع ہو کر اب خانہ جنگی کی شکل اختیار کر جانے والی بغاوت میں شامی باغیوں کو ہتھیار فراہم کر رہے ہیں۔

یاد رہے کہ جمعے کو ماسکو میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے روسی دفتر خارجہ کے ترجمان الیگزینڈر لوکاشیوِچ نے کہا تھا کہ روس کی درخواست پر بلائی جانے والی جنیوا امن کانفرنس میں دمشق حکومت نے شرکت کی یقین دہانی کرا دی ہے۔

km/ij(AFP,AP)