1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

سابق سوویت صدر میخائل گورباچوف چل بسے

31 اگست 2022

گورباچوف نے سن 1985 سے1991 کے دوران اپنے دور اقتدار میں سرد جنگ کو ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا تھا تاہم وہ سوویت یونین کو ختم ہونے سے بچانے میں ناکام رہے۔ منگل کے روز91 برس کی عمر میں ماسکو میں ان کا انتقال ہو گیا۔

https://p.dw.com/p/4GFUi
Michail Gorbatschow tot
تصویر: Boris Yurchenko/AP/dpa/picture alliance

ماسکو کے سینٹرل کلینیکل ہسپتال نے منگل کی رات ایک بیان جاری کر کے میخائل گورباچوف کے وفات کی اطلاع دی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ "ایک سنگین اور طویل بیماری" سے ان کا انتقال ہو گیا۔ اس سلسلے میں مزید تفصیلات فراہم نہیں کی گئی ہیں۔

کریملن کے ایک ترجمان نے بتایا کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن نے گورباچیف کی وفات پر"گہری ہمددری" کا اظہار کیا ہے۔ ترجمان نے مزید بتایا کہ صدر پوٹن آنجہانی رہنما گورباچوف کے اہل خانہ اور دوستوں کو بدھ کے روز تعزیت کا ٹیلی گرام بھیجیں گے۔

روس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی تاس نے بتایا کہ گورباچوف کو ماسکو کے نوویڈے ویچی قبرستان میں ان کی اہلیہ کی قبر کے پاس دفن کیا جائے گا۔

گورباچوف نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں میں تخفیف کا معاہدہ کیا
گورباچوف نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں میں تخفیف کا معاہدہ کیاتصویر: NARA/Everett Collection/picture alliance

عالمی رہنماوں کا ردعمل

اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل انٹونیو گوٹریش نے کہا کہ "گورباچوف ایک ایسے منفرد سیاست داں تھے جنہوں نے تاریخ کا رخ موڑ دیا۔" انہوں نے کہا کہ سابق سوویت رہنما نے سرد جنگ کو ختم کرنے کے لیے کسی دیگر فرد کے مقابلے کہیں زیادہ خدمات انجام دیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے گورباچوف کو ایک "نادر رہنما" قرار دیا جس نے دنیا کو محفوظ بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے گورباچوف کو ایک "قابل اعتماد اور قابل احترام" رہنما قرار دیا جس نے آہنی پردے کو اتارنے میں مدد کی تھی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے کہا،"یورپ میں امن کے حوالے سے ان کے عزم نے ہماری مشترکہ تاریخ بدل دی۔"

گورباچوف برلن میں بدلے بدلے نظر آئے، تبصرہ

برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن نے کہا کہ سرد جنگ کے خاتمے کے حوالے سے وہ گورباچوف کی "ہمت اور ایمانداری" کے معترف ہیں۔ انہوں نے مزید کہا "ایسے وقت میں جب یوکرین میں پوٹن نے جارحانہ کارروائی کی ہے، سوویت سماج کو کھولنے کا ان کا انتھک عزم ہم سب کے لیے ایک مثال ہے۔"

سوویت یونین کے انہدام کے وقت امریکہ کے وزیر خارجہ کے عہدے پر فائز جیمس بیکر III نے کہا کہ "تاریخ میخائل گورباچوف کو ایک ایسے عظیم رہنما کے طور پر یاد رکھے گی جس نے ایک عظیم ملک کو جمہوریت کے راستے پر گامزن کیا۔"

ایک دیرپا میراث

سن 1985سے1991میں سوویت یونین کے انہدام تک گو کہ گورباچوف صرف سات برس تک اقتدار میں رہے تاہم اس دوران ملک کی اقتصادی اور سیاسی پالیسیوں میں غیر معمولی تبدیلیاں ہوئیں۔

گلاسنوست یا کھلے پن کی ان کی پالیسی کے نتیجے میں کمیونسٹ پارٹی اور ریاست کی نکتہ چینی کی اجازت مل گئی جس کا ایک زمانے میں تصور بھی ممکن نہیں تھا۔ تاہم اس کے سبب سوویت یونین کی جمہوریاوں لاتویا، لتھوانیا، ایسٹونیا اور بعد میں دیگر جمہوریاوں نے اپنی اپنی آزادی کے مطالبے بھی شروع کردیے۔ اس طرح گورباچوف کی گلاسنوسٹ کی پالیسی سوویت یونین کے ٹوٹ جانے پر منتج ہوئی۔

سوویت یونین کے آخری سربراہ کے طورپر گورباچوف نے امریکہ کے ساتھ ہتھیاروں میں تخفیف کا معاہدہ کیا اور اس آہنی پردے کو ہٹانے کے لیے مغرب کے ساتھ معاہدے کیے جس کے نتیجے میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے یورپ تقسیم ہوگیا تھا۔ دیوار برلن کا ٹوٹ جانا اور مغربی اور مشرقی جرمنی کا دوبارہ اتحاد ان کی کلیدی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

"گوربی" کے نام سے معروف گورباچوف کے اقتدار کا خاتمہ بہت مایوس کن رہا۔ اگست 1991 میں ان کے خلاف محلاتی سازشوں کی وجہ سے ان کے اختیارات بہت حد تک محدود ہوگئے۔ اپنے اقتدار کے آخری مہینوں میں انہوں نے ایک کے بعد ایک ملک کو سوویت یونین سے آزاد ی کے اعلان کا مشاہدہ کیا۔ انہوں نے 25 دسمبر 1991 کومستعفی ہونے کا اعلان کیا۔ اس کے ایک دن بعد سوویت یونین کا اختتام ہوگیا۔

افسوس ناک انجام

گورباچوف کو امن کے نوبیل انعام سمیت دنیا بھر سے انعامات اور ایوارڈز سے نوازا گیا تھا۔ لیکن وہ اپنے ملک میں زیادہ مقبول نہیں تھے۔ روسی ان پر اس وقت کی سپر پاور سوویت یونین کے منتشر ہو جانے کی ذمہ داری ڈالتے ہیں۔ ان کے ساتھیوں نے ان کا ساتھ چھوڑ دیا تھا اور اکثر افراد نے ساری ذمہ داری ان پر ڈال دی تھی۔

گورباچوف کی پالیسیوں سے ان کی کمیونسٹ پارٹی کے پرانے ارکان ناراض تھے۔ اگست 1991 میں جب ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا تو انہوں نے ایک فوجی بغاوت میں گوربا چوف کا تختہ الٹ کر ان کو گرفتار کر لیا۔

بورس یلسن نے اس موقع کا فائدہ اٹھایا اور مظاہرین کو گرفتار کرتے ہوئے گوربا چوف کی آزادی کے بدلے ان کی تمام سیاسی طاقت چھین لی۔ چھ ماہ بعد گوربا چوف اقتدار سے باہر تھے۔

اقتدار چھوڑنے کے بعد سن 1992میں انہوں نے خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹیڈ پریس سے بات چیت کرتے ہوئے کہا تھا، "میں اپنے آپ کو ایسے شخص کے طور پر دیکھتا ہوں جس نے اپنے ملک، یورپ اور دنیا کے لیے ضروری اصلاحات متعارف کروائیں۔" انہوں نے کہا تھا اگر انہیں یہ سب اقدامات دوبارہ کرنے پڑیں تو وہ دوبارہ بھی کرنے کو تیار ہیں۔

ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)