1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

گورباچوف برلن میں بدلے بدلے نظر آئے، تبصرہ

Friedrich Schmidt / امجد علی11 نومبر 2014

دیوار برلن کے انہدام کے پچیس سال مکمل ہونے کی تقریبات میں شرکت کے لیے آئے ہوئے سابق سوویت صدر میخائیل گورباچوف نے پیر دَس نومبر کو جرمن دارالحکومت برلن میں چانسلر انگیلا میرکل کے ساتھ ملاقات کی۔ ڈی ڈبلیو کا تبصرہ۔

https://p.dw.com/p/1DlLu
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق سوویت صدر میخائیل گورباچوف کے درمیان برلن کے چانسلر آفس میں ہونے والی ملاقات تقریباً چالیس منٹ تک جاری رہی
جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور سابق سوویت صدر میخائیل گورباچوف کے درمیان برلن کے چانسلر آفس میں ہونے والی ملاقات تقریباً چالیس منٹ تک جاری رہیتصویر: Sandra Steins/Bundesregierung via Getty Images

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فریڈرش شمٹ لکھتے ہیں:’’چانسلر انگیلا میرکل ولادیمیر پوٹن کی یوکرائن سے متعلق پالیسیوں کی سخت ناقد تصور کی جاتی ہیں جبکہ تریاسی سالہ میخائیل گورباچوف نے ان پالیسیوں کی حمایت کی، جو کئی ایک حلقوں کے لیے غیر متوقع تھی۔ گورباچوف نے اپنے اس موقف کو بھی کبھی چھپانے کی کوشش نہیں کی کہ وہ کریمیا کو روس کا حصہ گردانتے ہیں۔ پوٹن ہی کی طرح وہ بھی 1991ء میں اُس وقت کے سوویت یونین سے یوکرائن اور سفید روس کے الگ ہو جانے کو ایک ایسی تاریخی غلطی قرار دیتے ہیں، جس کے لیے اُن کے خیال میں بعد میں آنے والے اُن کے ایک جانشین بورس ژیلتسن قصور وار تھے۔

ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فریڈرش شمٹ
ڈی ڈبلیو کے تبصرہ نگار فریڈرش شمٹتصویر: DW/S. Eichberg

قابلِ توجہ ہے وہ شدت، جس کے ساتھ آج کل گورباچوف مغربی دنیا کو ہدفِ تنقید بنا رہے ہیں۔ وہ برلن اور ماسکو کے درمیان تعلقات کے ایک نئے آغاز کا مطالبہ کر رہے ہیں لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ مغربی دنیا کو اپنی سوچ بدلنی چاہیے، نہ کہ پوٹن کو۔ برلن آنے سے پہلے گورباچوف نے کہا تھا:’’مجھے پورا یقین ہے کہ آج کل پوٹن دیگر تمام لوگوں کے مقابلے میں روس کے مفادات کا سب سے بہتر تحفظ کر رہے ہیں۔‘‘ دوسری طرف اُنہوں نے بار بار پوٹن پر سخت تنقید بھی کی ہے، مثلاً 2013ء کے وسط میں جب روسی صدر کے حکم پر غیر سرکاری تنظیموں کے دفتروں کی تلاشی لی گئی تو گورباچوف نے کہا تھا:’’جو کوئی بھی آمریت چاہتا ہے، وہ وہاں جائے، جہاں پہلے سے آمریت موجود ہے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ سوچ کی یہ تبدیلی آخر کیسے آئی؟ خاص طور پر اِس صورت میں کہ پوٹن گورباچوف کو سوویت یونین کا گورکن اور تاریخ کی ایک غلطی قرار دیتے ہیں۔ اور اکیلے پوٹن ہی نہیں ہیں، جو ایسا سوچتے ہیں۔ روسیوں کی اکثریت گورباچوف کو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے لیے قصور وار سمجھتی ہے کیونکہ روسی شہری نہ صرف سوویت یونین کے ٹوٹ جانے پر افسردہ تھے بلکہ اُس کے نتیجے میں آنے والی معاشی اور سیاسی ابتری پر بھی۔ ایسا کرتے ہوئے وہ یہ بات عموماً نظر انداز کر دیتے ہیں کہ سوویت یونین کا شیرازہ گورباچوف کے برسرِاقتدار آنے سے پہلے ہی ٹوٹنا شروع ہو چکا تھا۔

سابق سوویت صدر میخائیل گورباچوف
سابق سوویت صدر میخائیل گورباچوفتصویر: Pool/Getty Images/M. Ukas

گورباچوف کے سر وہ غلطیاں بھی تھوپ دی جاتی ہیں، جو اُن کے بعد آنے والے بورس ژیلتسن سے سرزد ہوئیں۔ گورباچوف کو عام لوگوں کے مصائب کو سنجیدگی سے نہ لینے والا سیاستدان بھی کہا جاتا ہے۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد ہی اُنہوں نے سوویت یونین کی تاریخ میں شراب نوشی کے خلاف سب سے بڑی مہم شروع کی۔ اس مہم کے نتیجے میں روسیوں کی شراب نوشی پر تو کوئی فرق نہ پڑا البتہ گورباچوف کی مقبولیت تیزی سے کم ہونا شروع ہو گئی، یہاں تک کہ 1996ء کے صدارتی انتخابات میں اٰنہیں محض 0.51 فیصد ووٹ ملے۔ گورباچوف کا یہی المیہ ہے کہ بیرونی دنیا میں اُنہیں عزت و احترام کی نظروں سے دیکھا جاتا ہے جبکہ اپنے وطن میں وہ نفرت کا نشانہ بنے ہوئے ہیں اور یہی چیز ہے، جس نے اُن کے مزاج میں تلخی بھر دی ہے۔

وفاقی جمہوریہٴ جرمنی میں گورباچوف کا ہمیشہ پُرتپاک خیر مقدم کیا جاتا ہے۔ اس بات کا اندازہ اُنہیں دیوارِ برلن کے انہدام کے پچیس سال مکمل ہونے پر برلن میں منعقدہ تقریبات میں اپنی شرکت سے ایک بار پھر بخوبی ہو گیا ہو گا۔ اگرچہ گورباچوف پوٹن کی حمایت کر کے اور مغربی دنیا پر تنقید کر کے اپنے ہی اصولوں کی نفی کر رہے ہیں لیکن اس بات کا امکان کم ہے کہ اُنہیں اِس بناء پر جرمنی میں ہدفِ تنقید بنایا جائے گا، وہ اس لیے کہ جو کچھ گورباچوف نے جرمنی کے لیے کیا ہے، جرمنی اُس کے لیے ہمیشہ شکر گزار رہے گا۔‘‘