1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

جرمنی کے چھوٹے ہسپتال ’غائب‘ ہو رہے ہیں

19 دسمبر 2022

جرمنی میں ہر ماہ ایک چھوٹا ہسپتال بند ہو جاتا ہے۔ سیاست دانوں کے مطابق ایسے ہسپتال بہت زیادہ ہیں اور محکمہ صحت ان سب کو کھلا رکھنے کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن ناقدین کا کہنا ہے کہ ان کی بندش سے مریض مر سکتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4LBIi
جرمنی میں ہر ماہ ایک چھوٹا ہسپتال بند ہو جاتا ہے
جرمنی میں ہر ماہ ایک چھوٹا ہسپتال بند ہو جاتا ہےتصویر: Jens Büttner/dpa/picture alliance

ڈانیئلا تھیزن مغربی جرمنی میں اپنے چھوٹے سے آبائی قصبے آڈیناؤ میں ایک ہسپتال کے لیے لڑ رہی ہیں۔ منفی درجہ حرارت کے باوجود وہ احتجاج کے لیے سڑک پر موجود ہیں۔ سینٹ جوزف کلینک اس شہر کا واحد ہسپتال ہے اور اسے مارچ دو ہزار تیئیس میں بند کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔ اس ہستپال کی بندش کے خلاف تقریباﹰ تین ہزار مقامی باشندے ایک تحریک چلا رہے ہیں اور تھیزن بھی اسی تحریک کا حصہ ہیں۔

وہ کہتی ہیں، ''ہمیں دیہی علاقوں میں بھی اچھے ہسپتالوں کی ضرورت ہے۔ ان علاقوں کے لوگوں کے ساتھ دوسرے درجے کے شہریوں کا سا سلوک نہ کیا جائے۔‘‘ آڈیناؤ میں سرجیکل ڈیپارٹمنٹ تین سال پہلے ہی بند ہو گیا تھا۔

تھیزن کے پاس سنانے کے لیے کئی کہانیاں ہیں۔ مثال کے طور پر فالج کے ایک مریض کو 150 کلومیٹر دور ریاستی دارالحکومت مائنز کے ایک ہسپتال میں لے جانا پڑا کیونکہ وہاں قریب کوئی کلینک تھا ہی نہیں، یا وہ عمر رسیدہ خاتون، جنہیں شدید تکلیف کے باوجود اپنے گھر پر تین گھنٹے ایمبولینس کی آمد کا انتظار کرنا پڑا تھا۔

تھیزن کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ''میں اپنے گھر سے ایلیمینٹری اسکول دیکھ سکتی ہوں اور تین ہفتے پہلے وہاں ایک بچے کو حادثہ پیش آیا تھا۔ اسے 100 کلومیٹر دور ٹریئر کے ایک ہسپتال میں لے جانے کے لیے لکسمبرگ سے ایک ایمرجنسی ہیلی کاپٹر منگوانا پڑا۔ ہم یہاں تیسرے درجے کے شہری نہیں ہیں۔ ہم قانونی طور پر معیاری طبی دیکھ بھال کے حق دار ہیں۔‘‘

جرمنی کے وزیر صحت کارل لاؤٹرباخ
جرمنی کے وزیر صحت کارل لاؤٹرباختصویر: Political-Moments/IMAGO

تھیزن سیاست دانوں اور مقامی ہسپتال کی انتظامیہ دونوں سے ہی ناراض ہیں۔ یہ کیتھولک سوشل انٹرپرائز تین وفاقی ریاستوں میں 'مارین ہاؤس گروپ آف ہاسپٹلز‘ چلاتا ہے۔ مارین ہاؤس کے ترجمان ڈیٹمار بوخرٹ کے مطابق اب حالات تبدیل ہو چکے ہیں، ''آج کل مریض مقامی ہسپتال کے بجائے سیدھے بڑے ہسپتال یا پھر ماہرین کے پاس جاتے ہیں۔‘‘

بچوں میں سانس کی بیماریاں، جرمن ہسپتالوں میں گنجائش ختم

وہ کہتے ہیں کہ حالیہ برسوں کے دوران کسی بھی وقت 74 میں سے صرف 20 بستروں پر مریض موجود رہے اور وہ بھی بنیادی طور گیرییاٹرک وارڈ (عمر رسیدہ افراد کی دیکھ بھال کے شعبے) میں تھے۔ سن 2019 میں سینٹ جوزف کلینک میں صرف پانچ ممکنہ طور پر جان لیوا ہنگامی طبی حالت والے مریضوں کا علاج کیا گیا اور ایمبولینسں برسوں سے براہ راست دوسرے بڑے کلینکس کی طرف جا رہی ہیں۔

اس ہسپتال کا کل خسارہ اب 10 ملین یورو کے قریب پہنچ چکا ہے۔ ڈیٹمار بوخرٹ کے مطابق اس ہسپتال میں کل 55 مستقل ملازمین ہیں اور ان کے لیے نئی ملازمتیں تلاش کی جا رہی ہیں۔

نظام صحت میں 'انقلاب‘ لانے کا حکومتی منصوبہ

جرمنی کے وزیر صحت کارل لاؤٹرباخ ملکی نظام صحت میں بڑی اصلاحات لانے کی منصوبہ بندی کر رہے ہیں، جسے وہ ایک 'انقلاب‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔ وہ 'سہ درجہ ہسپتال سسٹم‘ متعارف کرانا چاہتے ہیں۔

پہلے درجے میں وہ ہسپتال شامل ہوں گے، جو بنیادی دیکھ بھال کی خدمات پیش کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ میں جدید ایمرجنسی روم ہو سکتے ہیں۔

دوسرے درجے میں وہ ہسپتال ہوں گے، جو معیاری اور خصوصی دیکھ بھال کی خدمات پیش کریں گے۔

تیسرے درجے میں ان ہسپتالوں کو شامل کیا جائے گا، جو خصوصی دیکھ بھال کی وسیع خدمات پیش کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے، جیسے کہ یونیورسٹیوں کے بڑے اور جدید ہسپتال ہوتے ہیں۔ ایسے ہسپتالوں میں جدید آلات، مریضوں کی زیادہ گنجائش اور ہر لحاظ سے اہلکاروں کی تعداد اور اہلیت کا خیال رکھا جائے گا۔

حکومتی منصوبے پر تنقید

کلاؤس ایمیرش ان حکومتی منصوبوں سے پریشان ہیں۔ وہ باویریا کے قصبے زولس باخ  روزنبرگ کے مقامی ہسپتالوں کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں شامل تھے۔ وہ کہتے ہیں، ''اگر اگلا ہسپتال 30 منٹ سے زیادہ کی دوری پر ہے تو یہ بات خطرناک ہے۔ یہ پہلو مریضوں کے لیے انفرادی طور پر جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔‘‘

ان کے اندازوں کے مطابق جرمنی میں 650 ہسپتالوں کو خطرہ ہے کہ وہ بس نرسنگ ہومز سے زیادہ کردار ادا نہیں کریں گے۔ جرمن وزارت صحت کا خیال ہے کہ اس طرح کے بنیادی کلینکس کا انتظام ڈاکٹروں کے بجائے قابل نرسنگ سٹاف سنبھال سکتا ہے۔

تعداد کے بجائے معیار

رائنہارڈ بوسے برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں ہیلتھ کیئر مینجمنٹ کے پروفیسر ہیں۔ ان کی رائے بالکل مختلف ہے۔ وہ زیادہ سے زیادہ کلینکس کھلے رکھنے اور پھر انہیں کم سے کم معیارات سے آراستہ کرنے کے نظریے کے خلاف ہیں۔ بوسے کی نظر میں معیار اچھا ہے تو 'کم تعداد بھی زیادہ‘ ہے۔

وہ کہتے ہیں، ''ہمارے پاس جرمنی میں بہت زیادہ ہسپتال ہیں۔ کچھ اضلاع میں تو تین تین چھوٹے ہسپتال ہیں اور یہ سبھی جدید سامان سے لیس نہیں ہیں۔ یہ زیادہ بہتر ہے کہ ایک ہسپتال ہو لیکن وہ جدید ہو۔‘‘ رائنہارڈ بوسے ان 17 ماہرین اور معالجین میں سے ایک ہیں، جنہوں نے وفاقی وزیر صحت لاؤٹرباخ کے ''انقلابی منصوبے‘‘ کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

جرمن ہسپتالوں کو کن مسائل کا سامنا ہے اور حکومت اس کے لیے کیا کر رہی ہے؟

گزشتہ برس جرمن نظام صحت پر 495 ارب یورو خرچ کیے گئے تھے۔ اس طرح جرمنی کا نظام صحت دنیا کے مہنگے ترین نظاموں میں سے ایک ہے۔ صرف امریکہ ہی صحت کی دیکھ بھال پر اپنی مجموعی قومی پیداوار کا ایک بڑا حصہ خرچ کرتا ہے۔ بوسے کے مطابق جرمنی میں صحت کے نظام میں پیسوں کی کمی نہیں لیکن ان کی تقسیم ناقص ہے۔

وہ کہتے ہیں، '' ہسپتال ایک اسپونج کی طرح زیادہ سے زیادہ ڈاکٹروں کو جذب کر رہے ہیں۔ دوسرے ممالک کے مقابلے میں ہمارے پاس نرسنگ عملہ بھی بہت زیادہ ہے۔ اصل میں ہم وسائل کو بہت وسیع پیمانے پر تقسیم کرتے ہیں۔‘‘

مریضوں کی دیکھ بھال بہت مہنگی

بوسے کہتے ہیں کہ جرمنی میں 425 ایسے ہسپتال ہیں، جو دو اور تین کی کیٹیگریز میں آئیں گے، ''یہ نظام صحت میں ریڑھ کی ہڈی کی طرح ہیں۔‘‘ ان کی دلیل ہے کہ ان ہسپتالوں میں وہ اصلاحات لائی جائیں، جو بہت ضروری بھی ہیں، ''جرمنی میں لبلبے کے کینسر کے ستر فیصد مریضوں کا علاج کینسر کے مراکز میں نہیں بلکہ ہسپتالوں میں کیا جاتا ہے، جہاں مہارت کی بھی کمی ہوتی ہے۔‘‘

بوسے کی نظر میں یہ بات ناقابل فہم ہے، ''اب ہمیں یہ منطقی اصول متعارف کرانا چاہیے کہ ہسپتالوں کو صرف انہی مریضوں کا علاج کرنا چاہیے، جہاں ان سے متعلق مخصوص شعبے اور متعلقہ مہارت موجود ہو۔‘‘

اولیور پیپر (ا ا / م م)