1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

جرمنی کے ہسپتالوں کو کیسے بچایا جائے؟

7 نومبر 2022

برلن حکومت نے توانائی کے اخراجات کی ادائیگی کے لیے ہسپتالوں کو اربوں ڈالرکی امداد دینےکا وعدہ کیا ہے۔ حکومت ہسپتالوں کا نظام ٹھیک کرنے کے لیے اگلے بیس سالوں میں سب سے بڑی اصلاحات کرنے کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔

https://p.dw.com/p/4J8ja
تصویر: Ina Fassbender/AFP/Getty Images

جرمن وزیر صحت کارل لاؤٹرباخ نےحال ہی میں انکشاف کیا کہ جرمن ہسپتالوں کو توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات کا مقابلہ کرنے کے لیے اضافی 7.9 بلین ڈالر فراہم کیے جائیں گے۔ لاؤٹرباخ نے برلن میں بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں خصوصی فنڈز ’’بہت جلد آنے چاہییں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ اس رقم کا مقصد افراط زر سے نمٹنے کے لیے اضافی ضروریات کو پورا کرنا ہے۔

جرمن ہسپتال فیڈریشن (ڈی کے جی) نے خبردار کیا تھا کہ اخراجات میں تیزی سے اضافہ بہت سے ہسپتالوں کو دیوالیہ پن کے دہانے پر پہنچا دے گا۔

غلط مراعات؟

لیکن ہسپتالوں کو درپیش فوری مالی پریشانیوں پر دیگر بڑے مسائل بھی حاوی ہیں، جسے لاؤٹرباخ نے حل کرنا اپنا مشن بنا لیا ہے۔ ان مسائل میں جرمن ہسپتالوں میں عملے کی کمی کے ساتھ ساتھ نوکر شاہی کا وہ نظام بھی شامل ہے، جس کے تحت ہسپتالوں کو بہت سی مراعات فراہم کی جاتی ہیں۔ اس نظام  کے خلاف ڈاکٹر اور مریض دونوں ہی کئی سالوں شکایت کرتے آئے ہیں۔

جرمنی کے سرکاری نشریاتی ادارے اے آر ڈی کی ایک حالیہ دستاویزی فلم ایسی کئی کہانیوں پر مبنی ہے، جن میں ہسپتال زیادہ رقوم اینٹھنے کے لیے مریضوں کو طویل دورانیے کے لیے داخل کر لیتے ہیں یا پھر انہیں غیر ضروری جراحی کے عمل سے گزارتے ہیں۔

اس دستاویزی فلم میں یہ بھی دکھایا گیا ہے کہ قبل از وقت پیدا ہونے والے بچے ہسپتالوں کے لیے آمدنی کے سب سے زیادہ منافع بخش ذرائع میں سے ایک ہیں۔ جرمنی میں قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے لیے 170 مراکز کا ایک نیٹ ورک موجود ہے، جو کہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں کافی زیادہ ہے۔

جرمنی میں ریڑھ کی ہڈی کے آہریشنز کیے جانے میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہے
جرمنی میں ریڑھ کی ہڈی کے آہریشنز کیے جانے میں ڈرامائی اضافہ ہوا ہےتصویر: Felix Kästle/dpa/picture alliance

جرمن ہسپتالوں کے تمام شعبوں میں ایسی ہی کہانیاں عام ہیں: مصنوعی تنفس کی فراہمی بھی ایک ایسا ہی عمل ہے۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا کی پہلی لہر کے دوران مریضوں کو مصنوعی طریقے سے سانس لینے کی سہولت مہیا کیے جانے کی اشد ضرورت تھی۔

اس کے لیے پہلے 24 گھنٹوں میں تقریباً 11,000 یورو خرچ ہوتے ہیں، لیکن اگر یہ وقت پچیس گھنٹوں سے زائد ہو جائے تو ہسپتال دوگنی رقم کماتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ طویل عرصے تک مصنوعی تنفس کے نظام پر رہنے سے مریض کے پھیپھڑوں اور دل کو کافی نقصان پہنچا سکتا ہے۔

تشخیص سے متعلقہ گروپس

اس سارے معاملے میں مسائل کی اصل جڑ تشخیص سے متعلق گروپ (ڈی آر جی) کے مطابق بیماریوں کی درجہ بندی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس کے ذریعے بہت سے ممالک میں ہسپتال کیسز کی درجہ بندی کرتے ہیں اور انہیں ہیلتھ انشورنس کمپنیوں کے ذریعے ادائیگی کی جاتی ہے۔

کیس فیس کا یہ نظام سن 2003 میں جرمنی میں متعارف کرایا گیا تھا تاکہ ہسپتال میں قیام کی طوالت اور اس کے نتیجے میں ہسپتال کے عملے پر دباؤ کم کیا جا سکے۔

جرمنی میں بھی اب ہسپتالوں کو کیس کی بنیاد پر ادائیگی کی جاتی ہے، نہ کہ اس بات پر کہ مریض کتنی دیر تک ہسپتال میں رہا۔ کیس فیس متعارف کرائے جانے کے بعد سے جرمن ہسپتالوں میں قیام کی اوسط مدت دس دن سے کم ہو کر سات دن رہ گئی ہے۔ وبائی امراض کے باوجود 2021 میں ہسپتالوں میں مریضوں کے داخلے کی شرح کم رہی۔

لیکن یہ نظام اپنے ساتھ کچھ نقصانات بھی لایا ہے۔ ان میں زیادہ سے زیادہ مریضوں کا معائنہ کرنے اور انہیں زیادہ علاج تجویز کرنے کا دباؤ شامل ہے۔

اسی سبب بیس سالوں میں ہسپتالوں میں لائی جانے والی سب سے بڑی اصلاحات کا وعدہ کرتے ہوئے وزیر صحت لاؤٹر باخ نے کہا کہ وہ کیس کی فیس کو ایک بہتر نظام کے ساتھ تبدیل کرنے کے لیے پرعزم ہیں اور انہوں نے ایک 16 افراد پر مشتمل ماہرین کا کمیشن تشکیل دیا ہے، جو کہ سرکردہ ڈاکٹروں اور قانونی ماہرین پر مشتمل ہے، جو ہسپتالوں کے حوالے سے درپیش مسائل کے بارے میں بینادی حل تجویز کرے گا۔

وینٹیلیٹر کا استعمال منافع بخش کاروبار بن رہا ہے
وینٹیلیٹر کا استعمال منافع بخش کاروبار بن رہا ہےتصویر: Jeff Pachoud/dpa/picture alliance

جرمن ہسپتالوں کی  فیڈریشن  کے بورڈ چیئرمین جیرالڈ گاس حکومت کے اس فیصلے سے خاصے خوش ہیں، لیکن وہ کیس فیس کے نظام کو مکمل طور پر ختم کر دیے کے حق میں نہیں۔ گاس نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''ہم وزیر صحت کی رائے سے متفق ہیں کہ ہسپتالوں کی مالی امداد کے طریقہ کار میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ لیکن ہم کیس فیس کے نظام کو ختم کرنے کا مطالبہ نہیں کر رہے ۔ ہم چاہتے ہیں کہ اسے بڑھایا جائے اور اسے اپنا لیا جائے۔‘‘

مزید بیرونی مریض

ڈی جے کے کا ایک مطالبہ یہ بھی ہے کہ حکومت ہسپتالوں کو اندرونی اور بیرونی مریضوں کے شعبوں کو ملا کر کام کرنے دے۔ جیرالڈ گاس کے مطابق ایسا کرنے سے بہت سے ایسے ہسپتال،  جو صرف انہی مریضوں کا علاج کرتے ہیں جو ہسپتال میں داخل ہوں، وہ بند ہو جائیں گے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ ایسے خصوصی ہسپتال قائم کیے جانے چاہیے جو زیادہ سے زیادہ بیرون ملک سے آنے والے مریضوں کا علاج کر سکیں۔ گاس کے مطابق بہت سے یورپی ممالک میں اسی طرز کے ''سپر ہسپتال‘‘ قائم کیے گئے ہیں۔ انہوں نے کہا ، "مجھے یقین ہے کہ وزیر صحت اور کمیشن اس طرح کی ایک بڑی اصلاح کے لیے کوشاں ہیں۔ لیکن مجھے یہ بھی شک ہے کہ آیا وہ جس راستے کا انتخاب کر رہے ہیں وہ درست ہے۔‘‘

 لیکن گاس کو یہ پریشانی لاحق ہے کہ جرمنی میں صحت کی پالیسی زیادہ تر ریاستی سطح پر طے کی جاتی ہے، اس لیے ریاستی حکومتیں بعض ہسپتالوں کو بند کرنے جیسی اصلاحات  روک دیں گی، کیونکہ ایسا کرنے سے ان حکومتوں کی اپنی کارکردگی پر بھی سوالیہ نشان اٹھے گا کہ وہ اتنے سالوں تک کس طرح اس بدنظمی کا حصہ بنی رہیں۔ 

اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے گاس کا کہنا تھا، ''موجودہ کمیشن میں ریاستوں کی نمائندگی نہیں ہے، لہذا ہر وہ چیز جس کا فیصلہ کیا جا رہا ہے یا  تجویزدی جارہی ہے، اس کی بعد میں ریاستوں کی منظور ی  حاصل کرنا پڑے گی۔ ہمیشہ کی طرح ہر بڑے منصوبے کے راستے میں کھڑی سیاسی رکاوٹیں سب سے مشکل ہو سکتی ہیں۔‘‘

ش ر⁄ ع ا   (بن نائٹ )

چھاتی کے سرطان سے ڈرنا نہیں، لڑنا ہے