1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
صحتجرمنی

جرمنی: ٹیلی میڈیسن سے اسقاط حمل تک رسائی آسان

20 دسمبر 2021

جرمنی میں اسقاط حمل کرنے والے ڈاکٹروں کی تعداد میں ڈرامائی کمی آئی ہے۔ اب ٹیلی میڈیسن کے ایک پائلٹ پراجیکٹ نے خواتین کی تولیدی خود ارادیت کے حق کے استعمال میں بہت آسانی پیدا کر دی ہے۔

https://p.dw.com/p/44aSr
Deutschland | Protest gegen Paragraph 218 | Frauenrechte
تصویر: Michael Gstettenbauer/imago images

جرمنی میں ہر سال قریب ایک لاکھ اسقاط حمل کرائے جاتے ہیں۔ لیکن جرمنی کے 'کرمنل کوڈ‘ یا ضابطہ فوجداری کے پیراگراف 218 کے تحت اسقاط حمل غیر قانونی عمل ہے۔ اس کی خلاف ورزی کی سزا تین سال تک کی قید ہے۔ تاہم ریپ کی شکار خواتین اور ایسی خواتین کو استثنیٰ حاصل ہے جن کا حمل طبی پیچیدگیوں کے سبب ان کی جان کے لیے خطرے کا باعث ہو۔ اس کے علاوہ حمل ٹھہرنے کے تین ماہ کے اندر اندر اگر کوئی خاتون اپنی مرضی سے اسے ضائع کرنا چاہے تو اُس کی اجازت ہے۔

انٹرنیٹ معلومات پر پابندی

جرمنی میں انٹرنیٹ پر اسقاط حمل کی معلومات پر پابندی عائد ہے۔ یہاں اسقاط حمل کے عمل کے امکانات بھی تیزی سے محدود ہو رہے ہیں۔ 2003ء کے بعد سے اسقاط حمل کی سہولت فراہم کرنے والی کلینکس کی تعداد نصف رہ گئی ہے۔ جرمنی کے جنوبی علاقے میں کیتھولک عقیدے کے ماننے والوں کا غلبہ ہے اس وجہ سے جنوبی جرمنی میں اسقاط حمل کرنے والے ڈاکٹروں اور کلینکس کی بہت کمی ہے۔

کورونا اور اسقاط حمل: بلا خواہش حاملہ خواتین کے مصائب

جنوبی جرمن صوبے باویریا سے تعلق رکھنے والی آنا کہتی ہیں، ''میرا ڈاکٹر اسقاط حمل نہیں کرتا اور میرے علاقے سے قریب ترین واقع دوسرے ہسپتال پر متعدد بار اسقاط حمل کے مخالفین کے حملے ہو چُکے ہیں۔ اس ہسپتال کے پیچھے کی طرف سے ایک داخلی دروازہ ہے مگر ان مشکل حالات میں اُس دروازے سے داخل ہونے کی اضافی پریشانی کا سامنا کون کرنا چاہتا ہے۔‘‘

Schwangerschaftsabbruch | Abtreibungsgegner in München
جرمن صوبے بویریا کے شہر میونخ میں اسقاط حمل کے مخالفین کا احتجاجتصویر: Sachelle Babbar/ZUMAPRESS.com/picture alliance

آنا اور اُن کا پارٹنر دو سال سے مانع حمل مصنوعات کا استعمال کر رہے تھے، ''تانبے کے کوائل‘‘ IUD کا استعمال۔ اس کے باوجود آنا کا ٹیسٹ مثبت نکلا جو ان دونوں کے لیے انتہائی حیرانی کا سبب بنا۔ تانبے کے کوائل کے استعمال سے حاملہ ہونے کے امکانات بہت کم تصور کیے جاتے ہیں۔ ایسا کرنے والی 100 خواتین میں سے کبھی کبھار کوئی ایک کیس ایسا سامنے آتا ہے۔

آنا کی عمر 26 سال تھی اور اُس کا جیون ساتھی ایک خاندان کی ذمہ داری فی الحال لینا نہیں چاہتا تھا۔ ان کے خاندان کی طرف اس بارے میں عدم تعاون اور ان کی کمزور معاشی صورتحال نے ان دونوں کو اسقاط حمل پر مجبور کر دیا۔ یہ انتخاب ان کے لیے یقیناً آسان نہ تھا۔

پولینڈ: اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کے خلاف مظاہرے

نیا پائلٹ پراجیکٹ

آنا نے کسی کلینک کا رُخ کرنے کی بجائے گھر پر ٹیلی میڈیسن کی مدد لی۔ اس جدید طبی سہولت کے ذریعے اسقاط حمل کی پیشکش کرنے والے ایک نئے پائلٹ پراجیکٹ میں حصہ لیا۔ اس میں حصہ لینے والے ویڈیو چیٹ کے ذریعے گائناکالوجسٹ یا ماہر امراض نسواں سے کے ساتھ مشاورت کرتے ہیں۔ مشاورت کا یہ سلسلہ برلن میں قائم ایک مشاورتی مرکز ''پرو فیمیلیے‘‘ سے منسلک ڈاکٹروں کے ساتھ صلاح و مشورے کی سہولت فراہم کرتا ہے۔ خاندانی منصوبہ بندی کا یہ مرکز اور ڈاکٹروں کی ایک تنظیم ' ڈاکٹرز فور چوائس‘ دونوں کے تعاون سے یہ پائلٹ پراجیکٹ چل رہا ہے۔ 

Deutschland Abtreibungsrecht
بویریا میں کیتھولک چرچ کا غلبہ ہے اس لیے وہاں اسقاط حمل کی بہت زیادہ مخالفت پائی جاتی ہےتصویر: Sachelle Babar/ZUMAPRESS.com/picture alliance

وبائی مرض اہم وجہ

اس پراجیکٹ کو چلانے والے چار گائناکالوجسٹس یا ماہرین امراض نسواں میں سے ایک ڈاکٹر ژانا میئفرٹ کے بقول کووڈ 19 وبائی مرض کے دوران اسقاط حمل سے متعلق ورچوئل مشاورت کی فوری ضرورت پیش آئی۔ ان کا کہنا تھا، ''عالمی وبا کے دوران خواتین کی طرف سے ٹیلی میڈیسن سروس بروئے کار لانے کی سب سے اہم وجہ یہ نہیں تھی کہ وہ کووڈ 19 کا شکار ہوئیں یا انہیں قرنطینہ کرنا پڑا بلکہ انہیں بچوں کی دیکھ بھال کی سہولیات میں کمی کا سامنا کرنے کا خطرہ تھا۔‘‘

غیر ازدواجی جنسی تعلقات اب جرم: انڈونیشی طلبہ بغاوت پر اتر آئے

وبائی مرض کی وجہ سے بہت سے مریضوں کو مقامی طبی خدمات کی عدم دستیابی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران بہت سے گائناکولوجسٹ یا خواتین کے ڈاکٹر خود بیمار پڑ گئے، انہیں قرنطینہ کرنا پڑا یا یہ انہیں انفیکشن کے خوف کے مارے  اپنے کلینک بند کرنا پڑیں۔ آخر کار بہت سے علاقوں میں خواتین کو طبی دیکھ بھال کی شدید کمی کا سامنا کرنا پڑا۔

طریقہ کار

ٹیلی میڈیسن کے ذریعے اسقاط حمل کروانے سے پہلے خواتین کو کسی نرس سے اپنے اندر اس کی ترغیب یا تحریک پیدا ہونے کے بارے میں اور اس کے گھر پر طریقہ کار کی عملی خصوصیات کے بارے میں تفصیل سے بات کرنی چاہیے۔ اسقاط حمل کی خواہاں خاتون سے چند بنیادی سوالات کیے جانے چاہییں۔ مثال کے طور پر پوچھا جانا چاہیے کہ کیا وہ واقعی اسقاط حمل کروانا چاہتی ہیں؟ ان کو کس طرح کی حمایت حاصل ہو گی؟ کیا ان کے گھر پر اس کے لیے جگہ اور وقت میسر ہے؟  کیا ان کے پاس اس عمل کے دوران دیگر بچوں کی دیکھ بھال کا بندوبست ہے؟ وغیرہ

Fötus
جرمنی میں حمل کے ابتدائی تین مہینوں کے اندر اسقاط حمل کی اجازت ہےتصویر: Peter Endig/dpa/picture alliance

اگر مریضہ بالآخر اسقاط حمل کے اس طریقہ کار سے گزرنے کے لیے تیار ہو تو اُسے کچھ دستاویزات بشمول ایک الٹرا ساؤنڈ اسکین کو ایک محفوظ چیٹ سرور پر اپ لوڈ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ تاہم قانونی طور پر مطلوبہ مشاورتی سیشن کے بعد ہی یہ سلسلہ آگے بڑھتا ہے۔ تین روز بعد اس خاتون کو ڈاک کے ذریعے دو گولیاں اور درد کی دوا موصول ہوتی ہے۔اقتصادی بوجھ، رحم مادر میں ہی بچیوں کا قتل

 

ماہر امراض، ویڈیو چیٹ کے ذریعے مکمل نگرانی کرتے ہیں اور خاتون ان کی نگاہوں کے سامنے گولی لیتی ہے۔ خون کے بہاؤ کے لیے دو روز بعد دوسری گولی لینا ہوتی ہے جو یہ خاتون اپنے ساتھی یا کسی اور قابل بھروسہ شخص کی صحبت میں لیتی ہے۔‘‘

باویریا کے کیتھولک مسیحیوں میں اسقاط حمل متنازعہ

آنا ان مراحل سے گزر چُکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''مجھے بہت راحت محسوس ہوئی۔ میرا پارٹنر پورے وقت میرا ساتھ دینے کے لیے وہاں موجود تھا۔ اس عمل کو ویک اینڈ پر روئے کار لانا بھی ممکن تھا۔ اس طرح مجھے کام سے چھٹی لینے کے لیے کسی بہانے کی بھی ضرورت نہیں پڑی۔ میرے رشتہ داروں کو اس بارے میں اطلاع ملنا بالکل ضروری نہیں تھا۔‘‘

اس طریقہ کار سے اسقاط حمل کروانے والی خاتون کو ڈھائی ہفتوں کے بعد حمل کا ایک خصوصی ٹیسٹ کرنا پڑتا ہے تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ وہ اب حاملہ نہیں رہیں۔  

ڈاکٹر ژانا میئفرٹ جو ہر سال اپنے کلینک میں 100 کے قریب اسقاط حمل کرتی ہیں کا کہنا ہے، ''عام طور پر ایک عورت یہاں میری کلینک میں پہلی گولی لیتی ہے اور دوسری میں اسے گھر پر لینے کے لیے دیتی ہوں۔ ٹیلی میڈیسن اتنی ہی محفوظ ہے جتنی کے ذاتی طور پر کیا جانے والا علاج۔‘‘ ایمرجنسی کی صورت میں مریضہ قریب ترین ہسپتال جا سکتی ہے۔

لوئیزا فون رشٹہوفن (ک م/ ا ب ا)