پولینڈ: اسقاط حمل پر پابندی کے قانون کے خلاف مظاہرے
28 جنوری 2021پولینڈ میں اسقاط حمل سے متعلق نئے قانون کا نفاذ بدھ 27 جنوری سے ہوا جس کے خلاف بطور احتجاج ہزاروں افراد نے سڑکوں پر نکل کر مارچ کیا۔ نئے قانون میں اسقاط حمل پر ایک طرح سے مکمل طور پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
نئے قانون کے نفاذ سے قبل اس کی تفصیلات پولینڈ کے قانونی جریدے 'جنرل آف لاء' میں شائع کی گئی تھیں۔ اس کے خلاف احتجاج میں شامل مظاہرین نے پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے اور، ''میں سوچتا ہو، میں محسوس کرتا ہو اور میں فیصلہ کرتا ہوں '' اور ''بغیر دہشت کے انتخاب کی آزادی'' جیسے نعرے لگا رہے تھے۔
پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں مظاہرین نے ہاتھوں میں سرخ مشعلیں اٹھا رکھی تھیں اور قوس قزح کے رنگوں والے پرچم لہراتے ہوئے ٹریفک میں روکاوٹیں کھڑی کرنے کی کوشش کی۔ آنے والے دنوں میں اس قانون کے خلاف احتجاج کے مزید تیز تر ہونے کا خدشہ ہے۔
خواتین کے خلاف جنگ
پولینڈ میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی ایک سیاستدان وانڈا نویکا کا کہنا تھا کہ حکومت کو، ''خواتین کے خلاف اس جنگ میں ابھی کامیابی نہیں ملی ہے۔''
پولینڈ میں انسانی حقوق کے کمشنر نے بھی حکومت کے اس فیصلے پر یہ کہہ کر نکتہ چینی کی ہے کہ اس اقدام سے ریاست خواتین کو زد و کوب کر کے ان کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال رہی ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم 'وومن اسٹرائک' کی ایک رکن مارتا لیمپارٹ، جو مظاہروں کی روح رواں بھی ہیں، نے اس قانون کے خلاف لوگوں سے بڑی تعداد میں احتجاج کرنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس قانون کا نفاذ ایک جرم ہے۔
اس قانون کے تحت اسقاط حمل کی اجازت اسی صورت میں ہوگی جب جنسی زیادتی یا پھر ناجائز تعلقات کی وجہ سے حمل ٹھہر جائے یا پھر ماں کی جان کو خطرہ لاحق ہو۔ گزشتہ برس اکتوبر میں جب ملکی سپریم کورٹ نے اس کی منظوری دی تھی تو اس وقت بھی ملک بھر میں مظاہرے ہوئے تھے۔
اس نئے قانون میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر جنین میں کوئی نقص ہو، یا پھر اس میں کسی طرح کی عضلیاتی بے قاعدگیاں ہوں تو اس صورت میں اسقاط حمل پولینڈ کے آئین کے منافی ہے اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ حکومت مسلسل عدالت کے اس موقف کی حمایت کرتی رہی ہے۔
اس قانون کے مخالفین کا کہنا ہے کہ قدامت پسند اور کیتھولک حکمراں جماعت 'لاء اینڈ جسٹس پارٹی' نے اس قانون کے لیے عدالت پر بھی اپنے اثر و رسوخ کا استعمال کیا ہے۔ پولینڈ میں اکثریت قدامت پسند کیتھولک مکتب فکر کی ہے اور اسقاط حمل سے متعلق اس سخت قانون سے پہلے بھی یورپی یونین کے تحت بھی ملک میں بعض سخت قوانین تھے۔
ملک میں سالانہ دو ہزار سے بھی کم اسقاط حمل کے واقعات ہوتے ہیں جبکہ بہت سے ڈاکٹر اپنے مذہبی عقیدے کی وجہ سے اسقاط حمل کا آپریشن کرنے سے منع بھی کر دیتے ہیں۔ خواتین کے بعض گروپوں کے اندازے کے مطابق پولینڈ میں سالانہ تقریبا ًدو لاکھ خواتین کو مختلف وجوہات کی وجہ سے اسقاط حمل کروانے کی ضرورت پڑتی ہے جو وہ یا تو بیرون ملک کرواتی ہیں یا پھر گھر میں غیر قانونی طریقے سے۔
ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز، ڈی پی اے)