1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تیونس میں ٹرانسپورٹ ملازمین کی ہڑتال سے زندگی مفلوج

3 جنوری 2023

پبلک ٹرانسپورٹ کے ملازمین کی ہڑتال کی وجہ سے دارالحکومت تیونس کے بیشتر علاقوں میں زندگی مفلوج ہو کر رہ گئی۔ اس کی وجہ سے بعض ضروری امتحانات کو بھی منسوخ کرنا پڑا۔

https://p.dw.com/p/4Lf5m
Tunesien Transportstreik
تصویر: Fethi Belaid/AFP

تیونس میں دو جنوری پیر کے روز اس وقت نقل و حمل تقریباً ٹھپ ہو کر رہ گئی، جب محکمہ ٹرانسپورٹ کے ملازمین تنخواہوں کی ادائیگیوں میں تاخیر کے خلاف احتجاجاً اپنے کام سے واپس چلے  گئے۔

تیونس: پارلیمانی انتخابات کے دوران مایوسی کا ماحول

محکمہ ٹرانسپورٹ کے ورکرز قصبہ اسکوائر میں وزیر اعظم کے دفتر کے باہر جمع ہوئے اور انہوں نے حکام پر ان کے بہت سے مسائل کو نظر انداز کرنے کا الزام لگایا۔ انہوں نے تنخواہوں کی ادائیگیوں کی تقسیم میں تاخیر کا بھی ذکر کیا۔

تیونس کے 'داخلی معاملات میں مداخلت‘: امریکی سفیر کو طلب کر لیا گیا

ہڑتال کے باعث تیونس کے دارالحکومت میں سال کے آغاز پر ہی اسکولوں اور یونیورسٹیوں کا ٹریفک بری طرح متاثر ہوا۔ تیونس کے حکام نے اس ''حیران کن'' ہڑتال کی مذمت کی اور ٹرانسپورٹ کے وزیر نے الزام لگایا کہ اس کی وجہ سے طلباء اپنے تعلیمی اداروں میں بھی داخل نہ ہو سکے، جس کی وجہ سے کئی امتحانات کو منسوخ کرنا پڑا۔

تیونس: تبدیلی آئین پر ریفرنڈم کو عوامی حمایت کا دعوی، اپوزیشن نے مسترد کر دیا

بہار عرب کی جائے پیدائش تیونس اس وقت بڑھتی ہوئی مہنگائی اور صدر قیس سعید کی حکومت کے آمرانہ فیصلوں سے دوچار ہے۔

مظاہرین کے مطالبات کیا ہیں؟

اس ہڑتال کا اہتمام تیونس کی یو جی ٹی ٹی نامی طاقتور ٹریڈ یونین نے کیا تھا۔ اس میں شامل مزدور یونینوں کا کہنا ہے کہ جب تک ان کے مطالبات پورے نہیں ہوتے اس وقت اس مہم کو جاری رکھا جا سکتا ہے۔

تنظیم کے ایک کارکن وجیہہ زیدی نے تیونس کی سرکاری خبر رساں ایجنسی سے بات چیت میں کہا کہ مظاہرین اپنے واجبات، ادائیگیوں، فوڈ الاؤنسز اور سال کے آخر میں ملنے والے بونس کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو ابھی تک ادا نہیں کیے گئے ہیں۔

Tunesien Transportstreik
اس ہڑتال کی وجہ سے تیونس کا ٹریفک نظام مفلوج ہو رہ گیا اور بہت سے مسافروں کو کافی زحمت اٹھانی پڑیتصویر: Fethi Belaid/AFP

زیدی کا کہنا تھا کہ ''حکومت نے مزدوروں کے اہم مطالبات سے اپنا منہ موڑ لیا ہے۔''

دوسری طرف وزیر ٹرانسپورٹ ربیع المجیدی کا کہنا تھا کہ گزشتہ ہفتے 29 دسمبر کو ہی ملازمین کو ان کی تنخواہیں اور فوڈ الاؤنسز مل گئے تھے۔ انہوں نے ریاستی خبر رساں ادارے سے بات چیت میں مزید کہا کہ صرف سال کے آخر میں ملنے والے بونس کی رقم میں تاخیر ہوئی ہے۔

مجیدی نے ٹرانسپورٹ یونین پر 29 دسمبر کو وزارت کے ہیڈ کوارٹر پر ''ہنگامہ آرائی'' کرنے کا الزام بھی لگایا، جب  محکمے نے ان سے بونس تقسیم کیے جانے کا وعدہ کیا تھا۔

وزیر کا کہنا تھا کہ ان کی وزارت نے رواں ماہ کے ابتدائی دنوں میں ہی بونس ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے، تاہم انہوں نے اس کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی۔ انہوں نے کہا کہ تیونس کی ٹرانسپورٹ کمپنی ہڑتال کے حوالے سے ضروری قانونی اقدامات بھی کرے گی۔

ہڑتال کا اثر کیا ہوا؟

اس ہڑتال کی وجہ سے تیونس کا ٹریفک نظام مفلوج ہو رہ گیا اور بہت سے مسافروں کو کافی زحمت اٹھانی پڑی۔ سرکاری خبر رساں ایجنسی کے مطابق اس سے عوامی بسوں اور ٹراموں کی آمد و رفت بری طرح متاثر ہوئی، جس سے بہت سے شہریوں کو غصہ بھی آیا جو ٹکٹ بوتھ پر کھڑے ہوئے دکھائی دیے۔

بس اسٹیشن پر انتظار کرنے والی ایک خاتون نیجا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ''آج ہمیں دودھ، تیل، چینی یا کافی بھی نہیں مل رہی ہے۔ اس کے علاوہ اب ہمیں ایسی بسیں بھی نہیں مل پار ہی ہیں، جو ہمیں کام پر لے جا سکیں۔ تیونس ایک ناقابل برداشت جہنم بن چکا ہے۔''

تیونس کے باشندے کئی مہینوں سے تیزی سے بگڑتی ہوئی معیشت کے درمیان زندگی گزارنے کی جدوجہد میں مبتلا ہیں۔ اس کی وجہ سے ملک میں بہت سی اہم اشیا کی قلت پیدا ہو گئی ہے۔

اس بدحال اقتصادی صورت حال میں صدر قیس سعید کی حکومت بین الاقوامی مالیاتی فنڈ سے 1.9 بلین ڈالر کا قرضہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ صدر نے جولائی 2021 میں اقتدار پر قبضہ کر لیا تھا، جس کی بڑے پیمانے پر مخالفت ہوتی رہی ہے۔

ادھر مالیاتی ادارے آئی ایم ایف نے قرض دینے کے لیے خوراک اور توانائی کی سبسڈی ختم کرنے کے ساتھ ہی عوامی فرموں کی تنظیم نو کا مطالبہ کیا ہے۔ یہی شرائط قرض کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہیں، کیونکہ سیاسی طور پر حساس شرائط تسلیم کرنے سے سعید کی مقبولیت کو مزید کم ہو سکتی ہے اور ان کی حکومت کو مزید مخالفتوں کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی، روئٹرز)

ایک بے نام ایلان کردی