تحریک عدم اعتماد: اجلاس میں شرکت سے روکنے کا آپشن زیر بحث
11 مارچ 2022اس آپشن کا تذکرہ وفاقی وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کیا تھا جبکہ پی ٹی آئی کے کئی حلقے بھی یہ کہہ رہے ہیں کہ ایسا ممکن ہے کہ اراکین کو پابند کیا جائے کہ وہ اس دن اجلاس میں شرکت نہ کریں تا کہ حزب اختلاف پی ٹی آئی کے اراکین اسمبلی کو توڑ نہ سکے۔ ملک کے کئی حلقوں میں اراکین کو ممکنہ طور پر روکنے کے اس آپشن پرسیاسی، قانونی اور آئینی بحث ہورہی ہے۔
جوڑ توڑ کے دعوے
حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی دعوے کر رہے ہیں کہ انہوں نے ایک دوسرے کے اراکین کو توڑا ہے۔ اس حوالے سے کئی حلقے سیاست دانوں پرچھانگا مانگا سیاست کو فروغ دینے کا الزام لگا رہے ہیں.
سیاست دانوں کو اس بات پر بھی ہدف تنقید بنا رہے ہیں کہ جن سیاسی رہنماوں یا اراکین کو بدعنوان کہا جاتا تھا، آج ان کو پارٹی میں شامل کیا جا رہا ہے۔ اس کی ایک تازہ مثال جے یو آئی ایف کی طرف سے سابق وزیر اعلی خیبر پختونخواہ پرویز خٹک کے بھائی لیاقت خٹک اور ان کے بیٹے احد خٹک کو پارٹی کی صفوں میں شام کرنا ہے، جنہیں کل تک فضل الرحمن کی جماعت کرپٹ قرار دیتی تھی۔
غیر سیاسی قوتوں کی سیاست میں مداخلت کو ن لیگ نے ہمیشہ چیلنج کیا ہے لیکن اب عمران خان کھل کر شہباز شریف کو 'بوٹ پالیشیا‘ کہہ رہے ہیں۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ جے یو آئی ایف اور ن لیگ کل تک عمران خان کو غیر سیاسی قوتوں کا پسندیدہ قراردیتی تھیں، وہ آج خود ان ہی قوتوں سے عمران خان کے خلاف ان کا ساتھ دینے کی بھیک مانگ رہی ہیں۔
مدتوں سے منتخب رہنماؤں کی مدت پوری نہیں ہوئی
یہ ایک آپشن ہے
پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے ہمارے قائدین مختلف آپشنز پر سوچ بچار کر رہے ہیں اور فیصلہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں لیکن اگر عمران خان نے یہ فیصلہ کیا کہ کوئی رکن اسمبلی کے اجلاس میں شرکت نہیں کرے گا، تو ہم اس کی پابندی کریں گے۔‘‘
محمد اقبال خان آفریدی کا مزید کہنا تھا کہ اپوزیشن کہتی ہے اس کے پاس نمبر پورے ہیں اور وہ یہ ثابت بھی کریں گی۔ "تو ہمارے جانے یا نہ جانے سے ان پر کوئی فرق نہیں پڑنا چاہیے ان کو یہ ثابت کرنا چاہیے کہ ان کے پاس مطلوبہ تعداد موجود ہے۔‘‘
محمد اقبال خان آفریدی کے مطابق، "اگر کسی رکن نے پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی کی یا پارٹی فیصلے سے انحراف کیا اور حزب اختلاف کی صفوں میں جا ملا تو اس کے خلاف قانون اور آئین کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔‘‘
کوئی قانونی حیثیت نہیں
معروف قانون دان اور سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا ، "میرے خیال میں آئین میں کوئی ایسی شق نہیں ہیں جس کے تحت کسی رکن قومی اسمبلی کے خلاف کوئی کارروائی انحراف سے پہلے ہی کر دی جائے، جب رکن قومی اسمبلی اجلاس میں شرکت کریں گے اور پارٹی پالیسی کی خلاف ورزی میں ووٹ ڈالیں گے، تو اس کے بعد ہی ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں ریفرنس بھیجا جا سکتا ہے اور اسے نااہل قرار دیا جا سکتا ہے، اس سے پہلے اس کی نشست کو خالی نہیں کرایا جا سکتا اور نہ ہی اسے اجلاس میں شرکت کرنے سے روکا جا سکتا ہے۔‘‘
اخلاقی معاملہ
سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس وجیہہ الدین احمد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "یہ بات صحیح ہے کہ جب تک جرم کا ارتکاب نہ کیا جائے کسی کو سزا نہیں دی جاسکتی، لہٰذا رکن قومی اسمبلی جب پارٹی پالیسی کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک میں ووٹ ڈالے گا تو اس کے بعد ہی اس کے خلاف کارروائی کی جا سکتی ہے لیکن اخلاقی طور پر رکن قومی اسمبلی کو پارٹی کے نظم و ضبط کی پاسداری کرنا چاہیے ورنہ ملک میں چھانگا مانگا اور اراکین اسمبلی کو خریدنے کے بازار لگ جائیں گے۔‘‘
جسٹس وجیہ الدین کے مطابق پارٹی کے سربراہ کو اس بات کا اختیار ہونا چاہیے کہ وہ پارٹی کے اراکین پارلیمنٹ میں پارٹی کی پالیسی پر عمل کروائے۔ ''اگر ایسا نہ ہوا تو کرپشن بڑھے گی۔‘‘