1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستجرمنی

تحریک عدم اعتماد کا شور

3 مارچ 2022

پاکستانی اپوزیشن کی جانب سے جلد ہی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کی گونج ہر جانب سنائی دے رہی ہے۔ تاہم ناقدین کے خیال میں یہ تحریک کامیاب نہیں ہو گی کیونکہ حکومت کے اتحادی اس کے ساتھ ہیں۔

https://p.dw.com/p/47xC8
تصویر: Akhtar Soomro/REUTERS

پاکستان میں حزب اختلاف دعویٰ کر رہی ہے کہ وہ وزیراعظم عمران خان کی حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک پیش کرنے کے لیے تیار ہے اور وہ پر اعتماد ہے کہ یہ تحریک کامیاب بھی ہو گی۔ جبکہ ناقدین کا خیال ہے کہ اگر حزب اختلاف نے عمران خان کو ہٹانے کے لیے سیاسی وفاداریاں بدلنے والوں کی مدد لی تو یہ نون لیگ اور پاکستان کی جمہوری قوتوں کے لیے بہت بڑا دھچکا ہو گا۔

حزب اختلاف کا اعتماد

حزب اختلاف اس حوالے سے مطمئن نظر آتی ہے۔جمعیت علماء اسلام کی مجلس شوریٰ کے رکن اور فضل الرحمان کے قریبی معتمد محمد جلال الدین ایڈووکیٹ نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''ہماری تیاری پوری ہے اور میرے خیال سے تحریک عدم اعتماد اگر دنوں میں نہیں تو کم از کم ہفتوں میں پیش کی جا سکتی ہے اور مارچ کا مہینہ اس حوالے سے فیصلہ کن ہو گا۔ تاہم اس کے ٹائم ٹیبل کا فیصلہ ابھی تک نہیں ہوا اور یہ فیصلہ حزب اختلاف کی قیادت جلد ہی کرے گی۔‘‘

Pakistan Karacih | Fernsehübertragung Ansprache Imran Khan
تصویر: Asif Hassan/AFP

’تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی‘

حزب اختلاف کے اعتماد کے برعکس ناقدین کا خیال ہے کہ تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو گی۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے سیاسی مبصر حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ حکومت کے اتحادی اس کے ساتھ نظر آ رہے ہیں اور انہیں نہیں لگتا کہ یہ تحریک کامیاب ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''کیونکہ حکومت مشکل میں ہے تو یہ ممکن ہے کہ اتحادی جماعت حکومت سے کوئی سودے بازی کرے۔ ممکن ہے وہ ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈ مانگے جائیں۔ بجٹ بھی آ رہا ہے۔ بجٹ میں ترقیاتی کام تجویز کر سکتے ہیں اور اس کے علاوہ وہ وزارتیں بھی مانگ سکتے ہیں کیونکہ پاکستانی سیاسی کلچر میں یہ بات اہم ہے کہ الیکشن سے پہلے سیاسی جماعتوں یا امیدواروں کو یہ دکھانا پڑتا ہے کہ انہوں نے گزشتہ دور میں کچھ ترقیاتی کام کرائے۔‘‘

حبیب اکرم کے بقول حزب اختلاف کے پاس گنتی بھی پوری نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ مسلم لیگ ق، ایم کیو ایم اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس میں سے کسی نے بھی کھل کر نہیں کہا کہ وہ اس تحریک کی حمایت کرتے ہیں،''چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی

نون لیگ کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ اور گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس پیپلز پارٹی کے ساتھ بیٹھنے کے لیے تیار نہیں۔ ایسے میں تحریک عدم اعتماد کیسے کامیاب ہو سکتی ہے۔‘‘

سیاسی وفاداریوں پر بھروسہ

حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ نون لیگ حکومت کے اتحادیوں پر نقب لگانے کی بات کر رہی ہے۔ ان کے مطابق نواز شریف کی حکومت نے فلور کراسنگ کے خلاف قانون بنایا تھا لیکن اب نون لیگ والے اعلانیہ کہہ رہے ہیں کہ وہ حکومت کے لوگوں کو توڑ رہے ہیں،''یہ وہ لوگ ہیں، جو ہمیشہ اپنی سیاسی وفاداریاں تبدیل کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی مدد لینے سے نون لیگ کو بہت بڑا نقصان پہنچا ہے اور مستقبل میں بھی نون لیگ کو نقصان پہنچے گا۔‘‘

حزب اختلاف کا خوف

ملک کے کئی حلقوں میں یہ بھی سوال کیا جا رہا ہے کہ اپوزیشن نے آخر یہ ہی وقت کیوں منتخب کیا؟۔ حبیب اکرم کا خیال ہے کہ نوے کی دہائی میں نون لیگ نے سینٹرل پنجاب میں قرضوں کی ایک اسکیم شروع کی تھی اور آج تک سینٹرل پنجاب نون لیگ کا گڑھ سمجھا جاتا ہے،''بالکل اسی طرح صحت کارڈ، بلا سود قرضے اور آخری ڈیڑھ سال میں ممکنہ ترقیاتی کام ملک میں پی ٹی آئی کے لیے سازگار سیاسی ماحول پیدا کر سکتے ہیں اور اپوزیشن اسی ماحول سے خوفزدہ ہے۔‘‘

Pakistan Nawaz Shrif und Präsident Asif Ali Zardari
تصویر: Abdul Sabooh

 توجہ ہٹانے کا حربہ

پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ حزب اختلاف کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے۔ اس لیے وہ اپنی کرپشن سے توجہ ہٹانے کے لیے یہ سارے ڈرامے کر رہی ہے۔ پی ٹی آئی کی رہنما مسرت چیمہ کا کہنا ہے کہ انہیں اعتماد ہے کہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کامیاب نہیں ہو گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،''پی ٹی آئی حزب اختلاف کے دعوؤں کی بجائے اپنے اتحادیوں کے بیانات پر یقین کرے گی، جو ہمارے ساتھ کھڑے ہیں۔ دراصل مسئلہ یہ ہے کہ حزب اختلاف کے پاس عوام کو دینے کے لیے کچھ نہیں ہے اور یہ سب کچھ نواز شریف کے کرپشن کو چھپانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ اگر آج یہ مظاہرہ نہیں ہو رہا ہوتا تو لوگ یہ پوچھتے کہ شریف خاندان کے چپڑاسیوں کے پاس اربوں روپیہ کہاں سے آیا۔ تو یہ سب کچھ کرپشن کے مقدمات سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔‘‘

واضح رہے کہ بدھ کے روز مولانا فضل الرحمن نے میڈیا کے سامنے اس اعتماد کا اظہار کیا تھا کہ حزب اختلاف کی عدم اعتماد کی تحریک کامیابی سے ہمکنار ہو گی تاہم انہوں نے اس کا کوئی واضح ٹائم ٹیبل نہیں دیا تھا جبکہ جے یو آئی ایف کے ایک رہنما حافظ حمد اللہ نے 48 گھنٹوں میں ایسی قرارداد پیش کرنے کا کا کہا تھا۔ تاہم جے یو آئی ایف ذرائع کا کہنا ہے کہ اس تحریک کو کب پیش کرنا ہے اس کا فیصلہ ابھی نہیں ہوا۔

تحریک عدم اعتماد کی گونج

پاکستان کے سیاسی حلقوں میں تحریک عدم اعتماد کی گونج سنائی دے رہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان ایک کے بعد دوسری تقریب سے خطاب کر رہے ہیں جبکہ انہوں نے عوامی سطح پر بھی روابط بڑھا دیے ہیں۔ ناقدین کا خیال ہے کہ حکومت کے اتحادی جو وزیراعظم سے ملاقات کے لیے ترستے تھے اب وزیراعظم خود ان اتحادیوں سے جا کر مل رہے ہیں اور ان کی شکایات سن رہے ہیں۔ حالیہ دنوں میں ان کی ملاقات مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الہی سے ہوئی۔ چودھری شجاعت حسین اور چودھری پرویز الٰہی کی طرف سے یہ تاثر دیا گیا کہ وہ عدم اعتماد کی تحریک کا حصہ بننے نہیں جا رہے تاہم پارٹی کے  کچھ رہنماؤں نے مبہم باتیں بھی کیں، جن سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پارٹی نے ابھی تک صحیح معنوں میں اس حوالے سے فیصلہ نہیں کیا ہے۔ حکومت کی دوسری اتحادی ایم کے ایم بھی اس معاملے میں پریشانی کا شکار لگتی ہے اور اس نے بھی ابھی تک واضح طور پر یہ نہیں کہا کہ وہ اس تحریک کی مخالفت کرے گی یا حمایت کرے گی کچھ اسی طرح کی صورتحال گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس کی بھی ہے، جس کو اس حوالے سے فیصلہ کرنا ہے۔

تحریک عدم اعتماد کی تاریخ

پاکستان میں پہلی مرتبہ تحریک عدم اعتماد بے نظیر بھٹو کے خلاف پیش کی گئی، جو ناکام ہو گئی تھی۔ اس وقت حکومت کی ایک اہم اتحادی ایم کیو ایم تھی، جس نے حکومت سے علیحدگی کا اعلان کیا اور حزب اختلاف کے ساتھ ہاتھ ملایا لیکن اس علیحدگی کے باوجود بھی تحریک عدم اعتماد کامیاب نہیں ہو سکی۔ دوسری مرتبہ تحریک عدم اعتماد وزیر اعظم شوکت عزیز کے خلاف پیش کی گئی، جن کو پارلیمنٹ میں بہت معمولی سی اکثریت تھی لیکن یہ معمولی اکثریت تحریک عدم اعتماد کے دوران بھی برقرار رہی اور یہ تحریک بھی ناکام ہوئی۔

’خان صاحب اجازت ہو تو اب گھبرا لیں؟‘