1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے ضمیر معاشرے میں جانوروں کے حقوق کا تحفظ ایک لطیفہ

22 جون 2024

مشتاق احمد یوسفی نے صحیح کہا تھا کہ ہم کسی ایسے جانور سے اچھا سلوک نہیں کرتے، جسے ذبح کر کے نہ کھا سکیں۔ ایسا معاشرہ، جہاں انسانوں کو چیونٹیوں کی مانند مسلا جاتا ہو، وہاں جانوروں کے حقوق کی کیا وقعت ہے؟

https://p.dw.com/p/4hNn3
تابندہ خالد
تابندہ خالدتصویر: Privat

سانگھڑ میں کھیت میں داخل ہونے پر بے زبان اونٹنی کی ٹانگ کاٹنے کے معاملے پر عالمی سوشل میڈیا پر خوب تبصرے ہو رہے ہیں۔ وائرل اونٹنی کی عمر آٹھ ماہ ہے۔ یہ ایک شرارتی بچی ہے، جو اپنی ہی دھن میں مگن سیر سپاٹے کرتے ہوئے وڈیرے کی جاگیر کا بارڈر کراس کر بیٹھی تھی۔ اس معصوم کو اندازہ ہی نہیں تھا کہ جناب وڈیرہ سو ایکڑ زمین کے خدا بنے بیٹھے ہیں۔

 ظالم وڈیرے کی جارحیت کا نشانہ بننے والی اونٹنی ''کیمی‘‘ کے لیے دی وائر پاکستان کی جانب سے مصنوعی ٹانگ لگانے کا اعلان کر دیا گیا ہے۔ مصنوعی ٹانگ لگنے کے بعد ''کیمی‘‘ پھر سے چلنے کے قابل ہو جائے گی۔ مگر انسانوں کی موجودگی کیمی کو پریشان کر دیتی ہے۔ شاید تکلیف اور صدمے کا اثر اس کی نفسیات پر حاوی رہے گا۔

اکثر سوشل میڈیا پر ایسی تصاویر اور ویڈیوز وائرل ہوتی رہتی ہیں، جیسا کہ صحراؤں، ریگستانی علاقوں میں زندہ جانوروں کو جیپ سے باندھ کر جیپ دوڑائی جاتی ہے جبکہ اسکا تعاقب کوئی وحوش کر رہا ہوتا ہے۔ مرغوں، کتوں ،گدھوں کی لڑائی کروائی جاتی ہے یا ایسا بھی ہوتا ہے کہ گھوڑا گاڑی مال زیادتی کی وجہ سے لڑھک جائے اور گھوڑا توازن برقرار نہ رکھنے کے باعث معلق ہو جاتا ہے اور اس وقت تک وہ کرب میں مبتلا رہتا ہے، جب تک تمام خلقت تسلی سے ہنس ہنس کر اس کی ویڈیو سازی نہیں کر لیتی۔ مجال ہے کہ ہجوم میں سے کوئی تماشائی جانور کو ریلیف دینے کا بھی سوچے۔

مزید برآں آئے روز ایسی خبریں گردش میں رہتی ہیں کہ  اسلام آباد سے بیسیوں کی تعداد میں نایاب جانوروں کے اعضاء، ان کی کھالیں اور ان سے تیار شدہ کپڑے برآمد ہوئے ہیں۔ مگر حکام کا دعویٰ ہے کہ غیر قانونی کاروبار کہیں زیادہ وسیع ہے۔ اس دعویٰ پر مشتاق احمد یوسفی کا ایک قول یاد آ گیا: ''ہم کسی ایسے جانور سے اچھا سلوک نہیں کرتے جسے ذبح کر کے نہ کھا سکیں‘‘۔ مختلف معاشروں میں انسانوں کے جانوروں سے رویوں کا اظہار ادب و ثقافت اور فنونِ لطیفہ میں بھی نظر آتا ہے۔

اہرامِ مصر میں جانوروں کے حوالے سے مذہبی ترجیحات کا رنگ غالب ہے۔ قدیم مصری شہر سقارہ کی باقیات کے قریب ماہرینِ آثارِ قدیمہ کے مطابق تقریباً چار ہزار سو سال پرانے حنوط شدہ جانور (شیر، سانپ، مگرمچھ) دریافت ہوئے ہیں جبکہ بلیوں کی دیوی ''باستت‘‘ کے قریب بھی ایک کانسی کی بلی پائی گئی ہے۔ اس کے علاوہ سماجی و معاشی حالات کے پیشِ نظر جانوروں کی اہمیت کا اندازہ تو ہڑپہ، موہنجودوڑو کی تہذیب میں پنہاں ہے جہاں برتنوں پر بکریوں، بھینس، گائے جن کے کوہان بڑھے ہوئے ہیں، ان کی مصوری ملتی ہے۔ جانوروں کی اہمیت تو الہامی کتابوں میں بھی ہے۔

پاکستان: جانوروں پر بے رحمی کا نیا واقعہ، گدھی کے کان کاٹ ڈالے

پرانے عہدنامہ (Old Testament) کے مطابق کسی شخص کی ثروت کا اندازہ گدھوں کی تعداد سے لگایا جاتا تھا۔ یاد رہے کہ امریکہ میں دو بڑی سیاسی جماعتیں، ریپبلیکنز کا انتخابی نشان ہاتھی اور ڈیموکریٹ کا انتخابی نشان گدھا ہے۔ مغربی ثقافت میں جانوروں کی سیفٹی اور ان کے حقوق کی ضمانت کا بخوبی مشاہدہ ہوتا رہتا ہے۔

 یورپین نفسیاتی ماہرین کے مطابق ڈپریشن کو دور کرنے میں پالتو جانوروں کا کردار بہت اہم ہے۔ جانوروں اور پرندوں کی موجودگی سے مزاج میں اچھا فرق پڑتا ہے اور چند لمحات کے لیے ہم اپنی زندگی کی الجھنوں اور پریشانیوں کو بھول جاتے ہیں۔ جنوبی ایشیاء انڈیا میں ہر سال دسمبر کے مہینے میں ایک مرتبہ مندروں میں قید رکھی جانے والی ہتھنیوں کو ایک کیمپ میں لے جایا جاتا ہے، جہاں وہ چھٹیاں گزارتی ہیں اور ان کی دیکھ بھال کی جاتی ہے۔ جبکہ ہمارے گلی محلوں میں مداری اپنے پالتو بندر، ریچھ کو کرتب میں ذرا سی سستی دکھانے پر ڈنڈوں سے مار مار کر ہلکان کر دیتے ہیں۔ مظلوم جانور تماشے میں سستی کا مظاہرہ تب کرتے ہیں جب ان کے مالکان انہیں بھوکا رکھیں۔

پاکستان، جانوروں کو بھی جینے کا حق ہے!

 ہمارے پاکستانی معاشرے کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ شدید ترین اخلاقی، سماجی، معاشرتی بحران نے سماجی رویوں اور معاشرے کو اس قدر داغدار بنا دیا ہے کہ احترامِ آدمیت کی بجائے انسانوں کو چیونٹیوں کی مانند مسلا جا رہا ہے، ایسے میں جانوروں کے حقوق کا تحفظ محض لطیفے کے سوا کچھ نہیں۔ تلخ حقیقت ہے کہ جانوروں سے محبت کے متعلق دوہرا معیار ہے ۔بلیوں سے ہم محبت کرتے ہیں اور گدھوں کو پتھر مارتے ہیں۔

جانوروں سے بیزار افراد کو یہ بات ازبر کر لینی چاہیے کہ اسلامی معاشرے میں حیوانات سے شفقت پر بھی خصوصی ترغیب دلوائی گئی ہے۔

ایک روایت کے مطابق اخلاقِ رزیلہ میں مبتلا ایک خاتون صرف اس باعث جنت کی حقدار ٹھہری کہ اس نے اپنے موزے سے پیاسے کتے کو پانی پلایا اور ہم آزاد جانور تو کیا پالتو جانوروں کو دوپہر زوال کے وقت کھانا دیتے ہیں۔ کچھ جانور باقاعدہ آنسوؤں سے رو رہے ہوتے ہیں کہ جیسے مالکان کے جبری رویے کی شکایت کر رہے ہوں۔ اہم بات کہ جانور کو چارہ کھلا کر سواری کرنا، جانور کی قدرت وطاقت سے زیادہ اس پر بوجھ نہ لادنا، بلا ضرورت اس کو مار پیٹ نہ کرنا، یہ وہ چیزیں ہیں جن کی رعایت ضروری ہے۔

انسان اشرف المخلوقات علم کی وجہ سے ہی ہے۔ اس لاجک کو سمجھیے کہ تمام مخلوق خدا کا کنبہ ہے تو جاہل مت بنیے اور جانوروں سے حد سے زیادہ ظلم و زیادتی اور بلا ضرورت مشقت لینے سے گریز کیجیے۔

 

 نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍