1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستشمالی امریکہ

بھارت میں فیس بک مسلم مخالف، نفرت آمیز مواد ہٹانے میں ناکام

24 اکتوبر 2021

فیس بک کی کچھ داخلی دستاویزات سے پتہ چلا ہے کہ اس کمپنی کی جانب سے بھارت میں مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز اور تشدد پر اکسانے والے مواد کو صارفین تک پہنچنے سے روکنے کا عمل شفاف نہیں تھا۔

https://p.dw.com/p/42798
تصویر: Dado Ruvic/REUTERS

نیوز ایجنی ایسوسی ایٹڈ پریس کو ملنے والی ان دستاویزات کے مطابق فیس بک کے اپنے ملازمین کو اس کمپنی کے مفادات اور اس کے محرکات پر شبہ ہے۔ اس سال مارچ میں کی گئی ریسرچ   فیس بک کی بھارت میں  اپنے پلیٹ فارم سے نفرت آمیز مواد کو ہٹانے کی جدوجہد کو ظاہر کرتی ہے۔ بھارت ایک ایسا ملک ہے، جو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت ہے لیکن جہاں سوشل میڈیا پر مذہبی بحث اور فرقہ وارانہ نظریات کا اظہار حقیقی زندگی میں لوگوں کو تشدد پر اکساتے ہیں۔

فیس بک کی یہ دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ اس کمپنی کو اس بات کا اندازہ کئی سالوں سے ہے۔ کئی ناقدین اور ڈیجیٹل ورلڈ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ فیس بک کا ادارہ اس حوالے سے کچھ بھی کرنے میں ناکام رہا، خاص کر جب معاملہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ارکان کا ہو۔ دنیا بھر میں فیس بک سیاست کا اہم حصہ بن چکی ہے اور بھارت کی صورت حال اس حوالے سے مختلف نہیں۔

یہ تاثر عام ہے کہ نریندر مودی نے فیس بک کے پلیٹ فارم کو انتخابات کے دوران اپنی پارٹی کو فائدہ پہنچانے کے لیے استعمال کیا۔ وال اسٹریٹ جرنل کی ایک رپورٹ نےاس بات کو اجاگر کرنے کی کوشش کی کہ فیس بک کی طرف سے جان بوجھ کر بھارت میں اپنے پلیٹ فارم سے نفرت آمیز مواد کو نہیں ہٹایا جاتا تاکہ بی جے پی اس سے ناراض نہ ہو۔

فیس بک معاشرتی اقدار میں ٹوٹ پھوٹ کا ذمہ دار ہے، سابقہ ملازمہ کا انکشاف

فیس بک کی یہ دستاویزات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ بعض اوقات نفرت آمیز مواد فیس بک کے اپنے ایلگوردمز کے باعث زیادہ لوگوں تک پہنچتا تھا۔ اس بارے میں فیس بک کے ترجمان کا کہنا ہے، ''دنیا بھر میں اقلیتوں اور خاص طور پر مسلمانوں کے خلاف نفرت آمیز مواد بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ لہٰذا آن لائن نفرت آمیز مواد کو کنٹرول کرنے کے لیے ہم اپنی پالیسیوں کو مزید بہتر بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘

نیوز ایجنسی  اے پی کو یہ معلومات سکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن کی جانب سے کیے گئے انکشافات سے ملیں۔ ان انکشافات کو ایڈیٹ کر کے فیس بک کی سابقہ ملازمہ فرانسس ہوگن کے وکیل کی جانب سے امریکی کانگریس کو دیا گیا تھا۔

بھارت میں صورت حال

سن 2019ء میں انتخابات سے قبل فیس بک کے ایک کارکن ریسرچ کے مقصد سے یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ بھارت میں فیس بک کے صارفین کو ان کی ٹائم لائن پر کیا مواد نظر آ رہا ہے، وہ بھی اس وقت اگر کوئی صارف فیس بک کے تجویز کردہ پیجز کو لائک بھی کر رہا تھا۔ فیس بک کے اس کارکن نے ایک ٹیسٹ اکاؤنٹ بنایا اور اسے تین ہفتے تک چلایا بھی۔ اس دوران بھارت میں ایک غیر معمولی واقعہ پیش آیا، جس نے ملک بھر کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں عسکریت پسندوں کے ایک حملے میں چالیس بھارتی فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ واقعہ پاکستان اور بھارت کو ایک نئی جنگ کے قریب لے آیا تھا۔

فیس بک کے اس کارکن نے، جن کا نام ان دستاویزات سے ایڈیٹ کر دیا گیا ہے، کہا کہ اس حملے کے بعد ان کے بنائے ہوئے ٹیسٹ اکاؤنٹ کی نیوز فیڈ پر نظر آنے والے مواد ان کے لیے انتہائی حیرت کا باعث بنا۔ نیوز فیڈ پاکستان اور اسلام کے خلاف نفرت آمیز مواد اور جھوٹی افواہوں سے بھر گئی۔ اس ریسرچ کے حوالے سے فیس بک کا کہنا ہے کہ فیس بک چار بھارتی زبانوں میں نفرت آمیز مواد کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور کمپنی اپنے صارفین کو دیگر پیجز تجویز کیے جانے کے نظام میں بھی بہتری کی کوشش میں ہے۔

ب ج / م م (اے پی)

سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال ڈپریشن کا سبب بنتا ہے؟