1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارت: جموں و کشمیر میں انتخابات سے کیا توقعات ہیں؟

23 اگست 2024

بھارت کے زیر انتظام متنازعہ خطے جموں و کشمیر میں دس برس قبل آخری بار بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے اور اب اسمبلی انتخابات کا اعلان ہوا ہے۔ مودی حکومت نے سن 2019 میں اس علاقے کی نیم خود مختار حیثیت کو ختم کر دیا تھا۔

https://p.dw.com/p/4jolz
کشمیر کے بانیہال میں ایک فوجی پولنگ مرکز کی حفاظت پر
کشمیر میں انتخابات کی بحالی کا عمل تشدد میں اضافے کے درمیان ہو رہا ہے، جہاں جموں خطے میں خاص طور پر عسکریت پسندوں کے حموں میں اضافہ دیھکا گیا ہے تصویر: Faisal Bashir/SOPA Images/Sipa USA/picture alliance

بھارت نے اپنے زیر انتظام متنازعہ خطے جموں و کشمیر میں اسمبلی کے انتخابات کا اعلان کیا ہے، جہاں آخری بار سن 2014 میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تھے۔ اسمبلی انتخابات تین مرحلوں میں 18 ستمبر اور یکم اکتوبر کے درمیان ہوں گے۔

بھارت نے کشمیر میں اسمبلی انتخابات کا اعلان کر دیا

مرکز کے زیر انتظام اس علاقے میں پارلیمانی انتخابات کے لیے موسم گرما میں پولنگ ہوئی تھی، جس میں پچاس فیصد سے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالا تھا۔ اس بار بھی حکام کو  اسی طرح کی ووٹنگ کی توقع ہے۔

جموں و کشمیر بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک متنازعہ خطہ ہے، جہاں علیحدگی پسندی اور شورش کا بھی چلن رہا ہے۔ تاہم دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد سے وہاں نئی دہلی کی مودی حکومت کی انتظامیہ کا راج ہے اور ہر جانب فوج کا پہرہ ہے۔

کشمیر پر نئی دہلی کا کنٹرول

پچھلے اس طرح کے انتخابات کے دوران جموں و کشمیر کو کم سے کم ایک ریاست سمجھا جاتا تھا اور ریاستی حکومتوں کا انتخاب ہر چھ سال بعد ہوا کرتا تھا۔ تاہم ایسی آخری ریاستی حکومت 2014 میں بنی تھی، جو علاقائی پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی اور بی جے پی کے اتحاد پر مبنی مخلوط حکومت تھی۔

بعد میں بی جے پی کی حکومت نے حمایت واپس لے لی اور حکومت گرنے کے ساتھ ہی مودی حکومت نے اس کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرتے ہوئے، اس کا ریاستی درجہ بھی ختم کر دیا اور ساتھ ہی اس خطے کو مرکز کے زیر انتظام دو حصوں میں بھی تقسیم کر دیا۔ ایک جموں و کشمیر اور دوسرا خطہ لداخ۔

بھارتی کشمیر: عسکریت پسندوں کے حملے میں ایک اور فوجی افسر ہلاک

اس طرح مودی حکومت نے خطہ کشمیر پر پوری طرح سے اپنا کنٹرول حاصل کر لیا اور انتظامیہ براہ راست دہلی کے ہاتھ میں آ گئی۔

بھارت کو کشمیر سے جوڑنے والا اسٹریٹیجک ریلوے پل

اور اب مقامی انتخابات کے مکمل ہونے اور نئی انتظامیہ کے قائم ہونے کے بعد بھی نئی دہلی کو زیادہ کنٹرول حاصل رہے گا اور خطے کی معیشت اور سلامتی کے بارے میں اہم فیصلے نئی دہلی کی قومی حکومت اور اس کے مقامی نمائندے، لیفٹیننٹ گورنر منوج سنہا پر ہی منحصر ہوں گے۔

کشمیر میں پارلیمان انتخابات کے لیے پولنگ
مرکز کے زیر انتظام اس علاقے میں پارلیمانی انتخابات کے لیے موسم گرما میں پولنگ ہوئی تھی، جس میں پچاس فیصد سے زیادہ لوگوں نے ووٹ ڈالا تھاتصویر: Salahuddin Zain/DW

ریاست کی بحالی کا عزم

 پی ڈی پی کے ایک ترجمان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی پارٹی خطے کو بھارت کی دیگر ریاستوں میں سے ایک کی حیثیت دوبارہ حاصل ہوتے دیکھنا چاہتی ہے۔

پارٹی کے ترجمان موہت بھان نے کہا، "یہ وہ نہیں ہے، جس کی ہمیں امید تھی اور ہم ریاستی حیثیت کی بحالی چاہتے ہیں۔ لیکن کم از کم ہمارے پاس اسمبلی میں لوگوں کی نمائندگی تو ہو گی اور ان لوگوں کے لیے آواز ہوگی جن کی نہیں سنی گئی۔"

بھارت: جموں وکشمیر میں ایک کیپٹن سمیت پانچ سکیورٹی اہلکار ہلاک

ایک اور علاقائی سیاسی جماعت جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے پہلے ہی کشمیر پر پاک بھارت مذاکرات کے لیے زور دینے، ملازمتوں اور زمینوں کے تحفظ کے لیے قوانین متعارف کرانے اور سیاسی قیدیوں کی رہائی کا عزم ظاہر کیا ہے۔

نیشنل کانفرنس چاہتی ہے کہ مقامی حکام اپنی سابقہ ​​طاقت دوبارہ حاصل کر سکیں۔

نیشنل کانفرنس کے نائب صدر، عمر عبداللہ نے مقامی میڈیا سے بات چیت میں کہا، "ہم ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے پرعزم ہیں۔ حکومت سپریم کورٹ سے یہ وعدہ پہلے ہی کر چکی ہے۔ اگر وہ اپنی مرضی سے ریاست کا درجہ بحال نہیں کرتی ہے، تو ہم عدالت کے ذریعے انصاف کی پیروی کریں گے۔ ریاست کا درجہ ملنے سے، جموں و کشمیر کی حکومت کے پاس اختیارات ہوں گے۔ وعدوں کو پورا کرنے کی ضرورت ہے۔"

ہماری ضمانت پاکستان اور بھارت کے امن پر مبنی ہے، یوسف تاریگامی

جموں میں حملوں میں اضافہ

کشمیر میں انتخابات کی بحالی تشدد میں اضافے کے درمیان ہو رہی ہے۔ آٹھ جولائی کو کٹھوعہ ضلع میں فوجی قافلے پر عسکریت پسندوں کی طرف سے گھات لگا کر کیے گئے حملے میں پانچ بھارتی فوجی ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے تھے۔ جون میں، ضلع ریاسی میں عسکریت پسندوں کے حملے کے بعد ہندو زائرین کو لے جانے والی ایک بس گہری کھائی میں گرنے سے کم از کم نو افراد ہلاک اور 33 زخمی ہو گئے تھے۔

ماہرین نے نوٹ کیا ہے کہ جموں و کشمیر کے جموں خطے میں زیادہ پرتشدد واقعات رپورٹ ہو رہے ہیں، جو ماضی میں زیادہ تر تشدد سے محفوظ رہا ہے۔ سن 2024 کے پہلے چھ مہینوں میں جموں میں 17 افراد مارے گئے، جبکہ پچھلے سال کے دوران یہ تعداد 12 تھی۔

کشمیر: عسکریت پسندوں کے حملے میں متعدد بھارتی فوجی ہلاک

ایک غیر منافع بخش تنظیم انٹرنیشنل کرائسز گروپ کے ایک سینیئر تجزیہ کار پروین دھونتی کا کہنا ہے کہ انتخابات بذات خود اس وقت تک متعلق نہیں ہوں گے، جب تک کہ نئی دہلی بڑھتی ہوئی بے چینی سے نمٹنے کے لیے ایک بامعنی سیاسی عمل نہیں شروع کرتا۔

دھونٹی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "مذاکرات کے اس عمل میں تمام متعلقہ اسٹیک ہولڈرز کو شامل کرنا ضروری ہے اور یہ خلوص پر مبنی ہونا چاہیے۔ جو بات مناسب ہے وہ یہ ہے کہ ریاست کی حیثیت کو بھی بحال کیا جائے کیونکہ یہی حکومت کو بااختیار بناتی ہے۔"

اقتدار کی کشمکش

کشمیر سے متعلق بھارت کی ایک سابق مذاکرات کار اور جنوبی ایشیا میں امن اور تنازعات امور کی ماہر رادھا کمار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ یہ انتخاب انتہائی اہم ہے، کیونکہ یہ آخر کار لوگوں کو یہ سوچنے کرنے کا موقع فراہم کرے گا کہ وہ جموں و کشمیر کی تقسیم اور پھر مرکز کے زیر اہتمام ہونے والی تنزلی کے بارے میں کیا محسوس کرتے ہیں۔

مقید کشمیری رہنما انجینئر رشید نے رکن پارلیمان کا حلف اٹھایا

کمار نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، "ان واقعات پر عوامی ردعمل کا اظہار اس الیکشن میں کیا جائے گا۔ مجھے یقین ہے کہ جن پارٹیوں نے مودی انتظامیہ کے اقدامات کی مخالفت کی وہی انتخابات میں اچھا کام کریں گی۔"

کمار نے کہا کہ انہیں اس بات کی توقع نہیں ہے کہ کشمیر کی نو منتخب انتظامیہ یا مقننہ نرمی کے ساتھ نئے قواعد کی تابع ہو گی، جو لیفٹیننٹ گورنر کو بااختیار بناتے ہیں۔

انہوں نے کہا، "وہ (قانون ساز) زور دیں گے اور کسی بھی ایسے پالیسی یا فیصلوں کو چیلنج بھی کریں گے جن پر اسمبلی میں بحث نہ ہوئی ہو۔ یا پھر منتخب انتظامیہ کی طرف سے سفارش نہ کی گئی ہو۔ نیشنل کانفرنس کے منشور میں خصوصی حیثیت اور مکمل ریاست کا درجہ بحال کرنے کے لیے کام کرنے کا وعدہ کیا گیا ہے۔ یہاں تک کہ بی جے پی کے حامیوں نے بھی مکمل ریاست کے درجے کا مطالبہ کیا ہے۔"

ووٹرز مستقبل کا سگنل بھیجیں گے

دیگر تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ  قانون سازی کے اختیارات میں کمی کے باوجود، مقامی حکومت کو زیادہ سیاسی بااختیار بنانے کی جانب ایک قدم کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

کشمیری امور کی ماہر نونیتا چڈھا بہیرا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا،"ان انتخابات کی اہمیت اس بات میں نہیں ہے کہ آخر کار جموں و کشمیر میں کس کی حکومت ہو گی۔ بلکہ یہ ان سیاسی اشاروں میں مضمر ہے کہ کیا لوگ بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے باہر نکل رہے ہیں یا نہیں؟ کیا وہ جمہوری نظام میں حصہ دار بننے کے لیے تیار ہیں؟

ص ز/ ج ا (مرلی کرشنن)

’کشمیر میں قبرستان کا سناٹا ہے، یہ امن نہیں ہے‘: التجا مفتی