1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بھارتی دلہنیں جہیز کی آگ کا ایندھن کب تک بنتی رہیں گی!

1 فروری 2021

جب انیس سالہ چھ ماہ کی ایک حاملہ خوبصورت لڑکی جہیز نہ لانے کی وجہ سے اپنے سسرال میں مسلسل ذہنی و جسمانی اذیت کا نشانہ بنے اور اس تشدد کی تاب نہ لا کر خود کشی کر لے تو آپ ایسے خاندان اور معاشرے کے بارے میں کیا کہیں گے؟

https://p.dw.com/p/3oezf
Zeenat Akhte
تصویر: privat

بھارتی شہر اورنگ آباد کی باسی ایک بدقسمت لڑکی کی شادی کی مہندی کا رنگ ہاتھوں سے اڑا بھی نہیں تھا کہ سسرال والوں نے اسے چھوٹی چھوٹی باتوں پر طعنے دینا اور دق کرنا شروع کردیا، ''تیرے باپ نے شادی اچھی طرح سے نہیں کی، ہنڈہ (جہیز) نہیں دیا۔"

جب اپنے والدین کی اس اکلوتی اولاد نے اپنی ماں سے یہ شکایت کی تو اپنی روایتی سوچ کے مطابق ماں نے اپنی لاڈلی کو صبر کی تلقین کرتے ہوئے کہا کہ رشتوں میں ایسی چھوٹی موٹی باتیں ہوتی رہتی ہیں۔

لیکن آخر کار سسرال والوں کی طرف سے دولاکھ روپے کا مطالبہ زور پکڑتا گیا۔ لڑکی کے والد نے کہا کہ ان پاس اتنی رقم نہیں ہے اور وہ صرف پچاس ہزار روپے دے سکتا ہے۔

اس باپ نے پچاس ہزار کی رقم بھی اس شرط پر ادا کی کہ اب ان کی بیٹی کے ساتھ ظلم و ستم نہیں کیا جائے گا۔

یہ بھی پڑھیے: کیا مہنگی شادیاں کامیاب ازدواجی زندگی کی ضامن ہیں؟

مگر یہ سلسلہ جاری رہا، جس کی وجہ سے ان کی بیٹی یہ انتہائی قدم اٹھانے پر مجبور ہو گئی۔ ان  والدین کے اس درد کو شاید وہی صحیح طور پر سمجھ سکتا ہے، جو ایسے سانحے سے گزرا ہو۔  

میرے نزدیک یہ واقعہ اس لیے بھی زیادہ تشویش کا باعث ہے کیونکہ یہ ایک تعلیم یافتہ مسلم خاندان میں رونما ہوا ہے۔ یہ خاندان ایک ایسے تاریخی اور ثقافتی شہر اورنگ آباد سے تعلق رکھتا ہے، جہاں کے مسلمان تعلیمی ترقی کے حوالے سے ملک بھر میں اپنی منفرد پہچان رکھتے ہیں۔

یوں تو بھارت کے اکثریتی معاشرے میں جہیز کی خاطر نئی نویلی دلہنوں کو زندہ جلانے کے لرزہ خیز واقعات عام ہیں۔ تاہم بھارت غالباً دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں جہیز کی رسم کو قانوناً جرم قرار دینے کے باوجود یومیہ اکیس دلہنیں جہیز کی خاطر آگ کے شعلوں کی نذر کر دی جاتی ہیں یا خود کشی پر مجبور ہو جاتی ہیں۔

بھارتی نیشنل کرائم ریکارڈ بیوریو کے مطابق ہرسال سات ہزار سے زیادہ دلہنیں جہیز کی بھینٹ چڑھا دی جاتی ہیں۔  تاہم یہ امر تشویش ناک ہے کہ جہیز و ہنڈہ (شادی کے وقت دلھے کو دی جانے والے موٹی رقم) کی قبیحہ لعنت مسلم معاشرے کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہی ہے، جہاں اَن گنت لڑکیاں بِنا شادی ہی اپنی زندگی کے ایام گن رہی ہیں۔

وہیں دوسری طرف جب ان کی بیٹی جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتی ہے تو والدین کا جہیز کی وجہ سے چین وسکون چھِن جاتا ہے۔ انہیں یہ فکر دامن گیر رہتی ہے کہ اگر رشتہ آتا ہے تو پتہ نہیں جہیز کا کتنا بڑا مطالبہ ہو گا؟ اور کیا وہ اس مانگ کو پورا بھی کر سکیں گے؟

اس سماجی برائی کے سدباب کے لیے انسداد جہیز کے لیے سن 1961 میں ایک قانون وضع کیا گیا تھا، جس کے تحت جہیز کے مطالبہ کی صورت میں پانچ سال تک جیل کی سزا اور پندرہ ہزار   روپے یا جہیز کی مالیت کے برابر جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے۔

مزید برآں اس قانون میں فوجداری قانون کی شق 304 بی بھی شامل کی گئی ہے، جس میں جہیز کے مطالبات کی وجہ سے ہونے والی اموات کی صورت میں کم از کم سات سال یا عمر قید کی سزا ہو سکتی ہے۔

سخت ترین قانون سازی کے باوجود جہیزی اموات کی تعداد میں ہر سال اضافہ ہو رہا ہے۔ سال 2001 میں یومیہ اموات کی اوسطاً تعداد انیس تھی، جو اب بڑھ کر اکیس ہوگئی ہے۔ حال ہی میں ایک پی ایچ ڈی اسکالر اور ایئر ہوسٹس انیسا بترا کی خود کشی کا معاملہ سرخیوں میں آیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے:دلہنوں کے تحفظ کے لیے نیا قانون، جہیز کی لسٹ نکاح نامے میں

بترا نے اپنے مکان کے ٹیرس سے چھلانگ لگا کر خود کشی کر لی تھی۔ دہلی اور بنگلورو جیسے بڑے شہروں اور انتہائی تعلیم یافتہ خاندانوں میں سسرال والوں کی طرف سے اپنی نئی نویلی بہو کو ذہنی اذیت دینے کے معاملات آئے دن خبروں کی زینت بنتے ہیں۔

شہری اور دیہی دونوں علاقوں میں یہ سماجی برائی وباء کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔ جہیز کے بغیر شادی کا تصور ہی نہیں کیا جاسکتا ہے۔ اس حوالے سے بے شمار واقعات رونما ہوتے ہیں مگر والدین اس کی شکایت پولیس تھانوں میں اس ڈر سے درج نہیں کراتے کہ بعد میں ان کی بیٹی سے شادی کے لیے کوئی آمادہ نہیں ہو گا۔

میرے خیال سے جہیز کے مطالبات کے واقعات میں اضافے کی ایک وجہ والدین کا لڑکے کے اخلاق و کردار کے بجائے اس کی مادی حیثیت کو ترجیح دینا ہے۔ میں تو یہی مشورہ دیتی ہوں کہ  جہاں جہیز کا مطالبہ ہو وہاں شادی نا کریں کیونکہ جو خاندان کار، فریج، اے سی دیکھتے ہیں، ان کے نزدیک انسانی رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی ہے۔ 

یہ بھی پڑھیے: بھارت میں جہیز کی نہ ختم ہونے والی لعنت

دولت مند اور امیر طبقات کے لیے جہیز کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ دراصل اس سے سب سے زیادہ پریشانی متوسط اور غریب طبقات کو لاحق ہوتی ہے۔ جہیز اور اسی طرح کی دیگر معاشرتی برائیوں کے خاتمے کے لیے مسلمانوں کی کئی بڑی تنظیمیں جیسے کل ہند مسلم پرسنل لاء بورڈ، جمعیتہ علماء ہند وغیرہ اصلاح معاشرے کا کام کر رہی ہیں۔

لیکن میرے خیال میں اس کے اثرات اسی وقت مرتب ہوں گے، جب والدین اس بات پر سختی سے عمل کریں کہ وہ نا تو اپنی بیٹی کو جہیز دیں گے اور نہ ہی اپنے بیٹے کے لیے جہیز کا مطالبہ گے۔ یہ قبیح رسم دو طرفہ رویے سے ہی ختم ہو گی ورنہ دلہنیں اسی طرح جہیز کی آگ کا ایندھن بنتی رہے گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں