1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

کیا مہنگی شادیاں کامیاب ازدواجی زندگی کی ضامن ہیں؟

17 جنوری 2021

پاکستان میں شادیوں کا سیزن عروج پر ہے۔ شادی ہالز کے منتظمین ناک پہ مکھی نہیں بیٹھنے دے رہے، مہنگے ملبوسات تیار کرنے والوں کے پاس بات کرنے کی فرصت نہیں۔ شادی والے گھر میں تمام افراد کی دوڑیں لگی ہوئی ہیں۔

https://p.dw.com/p/3o1wP
Indien Muslimische Hochzeit
تصویر: picture alliance/AP Photo/R. Kakade

کسی کو اپنی شاپنگ کی فکر ہے تو کوئی انتظامات و اخراجات کی فکر میں ہلکان ہوا جا رہا ہے۔ بیٹی کی ماں سامان گن گن کے پورا کرنے کی جدوجہد میں مصروف ہے۔ شادی کے دن کو یادگار بنانے کے لیے کئی مہینے تیاری میں صرف کیے جاتے ہیں۔ اور اگر معاشی حالات ان تیاریوں کے متحمل نہ ہوتے ہوں تو آدھی سے زیادہ زندگی پیسے جوڑنے میں لگا دی جاتی ہے۔ شادی کا لفظ اپنے لغوی معنوں میں خوشی کا مفہوم رکھتا ہے اور اسے سنتے ہی ذہن میں ایک خوشی کا تاثر ہی بنتا ہے۔ لیکن کیا یہ لفط حقیقی معنوں میں ہمیں خوشی دے پاتا ہے؟

 ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شادی کے موقع پر کئے جانے والے غیر ضروری اخراجات نے ہماری حقیقی خوشیوں کو نگل لیا ہے۔ ہم جہیز کو زور و شور سے لعنت قرار دیتے ہیں۔ اس پر پابندی لگانے کے مطالبات بھی کیے جاتے ہیں۔ مگر عمل ہوتا کبھی نظر نہیں آیا۔ لیکن بات صرف جہیز کی نہیں ہے۔ شادی کے اخراجات ایک لڑکے کے لئے بھی کوئی آسان بات نہیں رہی۔ سونے کے زیوارات اور بری کی تیاری کے مرحلے طے کرنے کے بعد پورے ہفتے کی تقریبات کے انتظامات بھی ضروری ہیں۔ یہ تقریبات اکثر اوقات دولہے کو مکمل طور پر کنگال کر دینے کے ساتھ ساتھ مقروض بھی کر دیتی ہیں۔ نئی زندگی کی شروعات قرضوں کے بوجھ کے ساتھ کی جائے تو اللہ ہی حافظ ہے۔

دوسری جانب وہ لڑکی، جس کے والدین نے ایک ایک پائی جوڑ کر جہیز بنایا، اس سامان سے وہ اپنی جذباتی وابستگی قائم کر لیتی ہے۔ اور اس سامان میں بہت سی غیر ضروری چیزیں بھی شامل کر لی جاتی ہیں۔ نئے جوڑے کو اپنی زندگی میں شاید ہی کبھی اُن چیزوں کی ضرورت پڑے۔ لیکن چونکہ یہ چیزیں دینا روایت میں شامل ہے لہذا اس غیرضروری سامان کا موجود ہونا ضروری ہے۔ اور پھر وہ لڑکی پوری تندہی سے اس سامان کی حفاظت میں جت جاتی ہے۔

DW Urdu Blogerin Tahira Syed
طاہرہ سید، بلاگرتصویر: Privat

اب اس سارے سرکس میں اصل مقصد کہیں فوت ہی ہو جاتا ہے۔ وہ رشتہ جیسے دونوں نے مل کر مضبوط کرنا تھا ابتداء میں ہی کمزور پڑنے لگتا ہے۔ وہ خاندان جس کی مضبوط بنیاد دونوں نے مل کر رکھنی تھی دیمک زدہ ہو کر آگے بڑھنے کا سفر طے کرتا ہے۔   

اس سارے فساد کی جڑ دراصل وہ شادیاں ہیں، جو پورے میڈیا کی توجہ حاصل کر لیتی ہیں اور غریب عوام کی آنکھوں میں خواب سجانے کا باعث بنتی ہیں۔ ان مہنگی ترین شادیوں کا احوال سن کر خوشی یا حیرت نہیں ہوتی بلکہ خوف آتا ہے۔ حال ہی میں سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی ایک شادی کی تصاویر نے بےشمار دلوں میں ہلچل مچائی۔

یہ بھی پڑھیے:

بیٹی کی طلاق کا غم یا اس کی موت کا سوگ؟

’مثالی پنجابی دلہن‘ انگریزی کی ماہر ہونی چاہیے

لاہور میں ہونے والی اس شادی کی چکاچوند نے ایف بی آر کو بھی نوٹس لینے پر مجبور کر دیا۔ ماضی میں بھی ایسی کئی شادیوں نے دھوم مچائی۔ غور طلب بات یہ ہے کہ دنیا کی مہنگی ترین شادیاں کبھی بھی کامیاب زندگی کی ضمانت نہیں بن سکیں، جس کی سب سے بڑی مثال لیڈی ڈیانا اور پرنس چارلس کی شادی تھی۔ دنیا کی مہنگی ترین شادی کا ٹائٹل حاصل کرنے کے باوجود ناکام ترین ازدواجی زندگی کا تماشا دنیا نے دیکھا ہے۔ دوسرے نمبر پر مہنگی ترین شادی پڑوسی ملک بھارت میں سجائی گئی۔ پاک بھارت کی عوام بھی مہنگی ترین شادیاں سجانے کا شوق رکھنے والی غریب قوم ہے۔ جن کی زندگی کا مقصد ہی بچوں کی شادیوں کے لیے پیسہ جوڑنا ہوتا ہے۔ ساری عمر کی کمائی بھی بچوں کی شادیوں میں کم پڑ جاتی ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر دینے کے باوجود طلاق کی شرح میں مسلسل اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری ترجیحات غلط سمت میں جا رہی ہیں۔

ہمارا معاشرتی نظام ایسا بن چکا ہے کہ ہر شخص اسی فکر میں ہلکان ہوا رہتا ہے کہ کہیں ناک نہ کٹ جائے۔ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ یہ ایک ایسا جملہ ہے، جو ہماری پوری زندگی پر ایک سیاہ دھبہ بن کر رہ جاتا ہے۔ ہماری زندگی کی ساری خوشیاں اور مسرت بھرے لمحات اسی سیاہ دھبے کے پیچھے چھپ جاتے ہیں۔ اگر ہم دکھاوے کی فکر میں پڑے بغیر زندگی گزاریں تو یہی خاردار زندگی گلزار بن سکتی ہے۔ ہمارے معاشرے کی شادیاں والدین پر ایک ایسا بوجھ ہیں، جو لوگوں کے ڈر سے انہیں بہت بھاری پڑ جاتا ہے۔ ’’لوگ کیا کہیں گے؟‘‘ کا ڈر نہ ہو تو ہم سب شادیوں پر اتنا ہی خرچہ کریں جتنا ایک خاندان کی بنیاد رکھنے کے لئے ضروری ہے۔ ہمارے معاشرے میں بگاڑ کی ایک بہت بڑی وجہ نمود و نمائش ہے۔ شادیوں پر خرچ صرف اسی جذبے کو تسکین دینے کے لئے کیا جاتا ہے۔ 

جہاں سوشل میڈیا پر مہنگی شادیوں کا شور ہے تو وہیں پر ایسی مثالیں بھی نظر آرہی ہیں جنہوں نے انتہائی سادگی سے شادی کی۔ اور دعوت ولیمہ کا کھانا کسی یتیم خانے میں کھلایا یا کسی اور نیک مصرف میں خرچ کیا۔ ایسی بہت سی مثالیں ہمارے اردگرد نظر آنے لگی ہیں، جہاں معاشرتی روایات کے برخلاف لوگوں نے اپنی نئی زندگی کی شروعات کیں۔ یہ بات بہت خوش آئند ہے کہ ہماری نئی نسل میں بہت سے لوگ ان احمقانہ روایات کو ختم کرنے کے لئے عملی نمونہ بن رہے ہیں۔

لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمارے امراء بھی اس سلسلے میں قدم اٹھائیں۔ اپنے بچوں کی شادیاں سادگی سے کریں اور شادی کے موقع پر کسی فلاحی کام کی بنیاد رکھیں۔ اپنی جیب کے مطابق کسی کچی بستی میں راشن تقسیم کریں یا کسی علاقے میں درخت لگوا دیں۔ اربوں روپیہ شادی پر خرچ کرنے کے بجائے کتنے ہی غریبوں کو گھر کی چھت میسر آسکتی ہے۔

 اپنے بیٹے کی شادی میں خرچہ کم کر کے غریب کی دس بیٹیوں کی شادی بھی کی جا سکتی ہے۔ اربوں اور کھربوں روپے کا دکھاوا کر کے شادیاں کرنا کامیاب زندگی کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ بلکہ رشتوں کی بنیاد باہمی ہم آہنگی، احترام اور اعتماد کی بنیادوں پر رکھی جاتی ہے۔