بچوں کا عالمی دن، حقوق اطفال پر زور
20 نومبر 2019بچوں کے حقوق پر اقوام متحدہ کے کنوینشن کے مطابق دنیا کا ہر بچہ اپنی بقا، تحفظ، ترقی اور شمولیت کا حق رکھتا ہے۔ اقوام متحدہ کی جانب سے بچوں کے حقوق کے لیے بنائے گئے کنوینشن کے مطابق پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کوئی خاطر خواہ بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔ اس کنوینشن کی جانب سے گزشتہ برس جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق ملک میں بچوں کو بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں جن میں زندہ رہنے، صحت، تعلیم اور تحفظ کے حقوق شامل ہیں۔
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق اس وقت پاکستان میں 80 ملین بچے آبادی کا حصہ ہیں جو بنیادی ضروریات زندگی کے حصول کا حق رکھتے ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف 20 فیصد شہری علاقوں سے تعلق رکھنے والے بچے ہیں جنہیں تمام سہولیات میسر ہیں۔ اس وقت پاکستان میں بچوں کے حقوق کے حوالے سے کیا صورتحال ہے اس کے بارے میں بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی ایک بین الاقوامی تنظیم ، 'ہیومینیم' کے مطابق اگر صرف صحت کے حوالے سے بات کی جائے تو ملک میں پانچ سال کی عمر تک پہنچنے سے پہلے ہی ہر چھ میں سے ایک بچہ انتقال کر جاتا ہے۔
ہیومینیم سے تعلق رکھنے والی ایک کارکن یامرخ ازترک بتاتی ہیں،" ملک میں کم عمر بچوں کی اموات کی بڑی وجہ ڈائریا اور پانی، صحت و صفائی کی ناقص صورتحال کے علاوہ غذا کی کمی کے باعث ہورہی ہیں۔ اس وقت پاکستان میں 30 فیصد بچے عمر کے لحاظ سے وزن میں کمی کا شکار ہیں جبکہ 50 فیصد سے زائد بچوں کا وزن مناسب طور پر نہیں بڑھ رہا۔ دوسری جانب تقریباً 9 فیصد بچے نہایت لاغر اور کمزور ہیں۔"
دوسری جانب اگر بچوں کے تعلیمی حقوق کا جائزہ لیا جائے تو اس میں بھی صورتحال ابتر نظر آتی ہے۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو کی جانب سے حالیہ جاری رپورٹ کے مطابق پاکستان ،اسکول نہ جانے والے بچوں کے لحاظ سے دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانچ سے سولہ برس کی عمر کے اندازہ 22 ملین بچے اسکول نہیں جاتے جبکہ پانچ ملین بچے پرائمری تعلیم سے آگے نہیں داخلہ لیتے۔ بچوں کی ناخواندگی کے حوالے سے صوبہ سندھ سب سے آگے ہے جہاں غریب گھرانوں سے تعلق رکھنے والے 52 فیصد بچے تعلیم سے محروم ہیں۔
پاکستان میں بچوں کے بنیادی حقوق کے حوالے سے سرکاری سطح پر جو کوششیں کی جارہی ہیں اس بارے میں پاکستان میں یونیسیف کی نمائندہ، عائدہ گرما کہتی ہیں کہ گو کہ پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جس نے اب سے تیس برس قبل حقوق اطفال کے چارٹر پر ایک برس کے اندر ہی دستخط کر دیے تھے اور اس چارٹر پر عمل درآمد کی کوششیں شروع کر دی تھیں تاہم یہ کوششیں ناکافی ہیں اور مزید بہتری کی ضرورت ہے۔