1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا میں ایک لاکھ تارکین وطن بچے زیر حراست، اقوام متحدہ

19 نومبر 2019

اقوام متحدہ کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق امریکا میں ایک لاکھ سے زائد تارکین وطن بچے سرکاری حراستی مراکز میں بند ہیں۔ عالمی ادارے کے ایک اعلیٰ اہلکار نے ایسے بچوں کے جبراﹰ ان کے خاندانوں سے علیحدہ رکھے جانے کی مذمت کی ہے۔

https://p.dw.com/p/3THvi
تصویر: Getty Images/AFP/R. Wise

اس رپورٹ کے مطابق امریکا میں حکام کی حراست میں اور والدین اور دیگر اہل خانہ سے دور رکھے جانے والے ان کم عمر افراد کی حراست کا تعلق کسی نہ کسی طور ترک وطن کے مسئلے سے ہے۔ بین الاقوامی سطح پر انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے ماہر قانون اور اقوام متحدہ کے محقق مانفریڈ نوواک نے اس رپورٹ کی تفصیلات جاری کرتے ہوئے بتایا کہ پوری دنیا میں اس وقت کم از کم بھی تین لاکھ تیس ہزار بچے ایسے ہیں، جو ترک وطن سے متعلقہ معاملات کے باعث مختلف ممالک میں زیر حراست ہیں۔

لیکن انتہائی تشویش کی بات یہ ہے کہ پوری دنیا میں ایسے بچوں میں سے تقریباﹰ ایک تہائی صرف امریکا میں زیر حراست ہیں۔ مانفریڈ نوواک اقوام متحدہ کی اس رپورٹ کے مرکزی مصنف بھی ہیں، جس کا عنوان ہے: 'آزادی سے محروم کر دیے گئے بچوں سے متعلق اقوام متحدہ کا عالمی جائزہ‘۔

نوواک اور ان کے ساتھی محققین کے مطابق امریکا میں اس وقت ایسے کم عمر تارکین وطن کی تعداد ایک لاکھ تین ہزار کے قریب ہے، جو حراستی مراکز میں بند ہیں۔ ان میں ایسے بچے بھی شامل ہیں، جو امریکا پہنچے ہی اپنے والدین کے بغیر تھے اور ان میں وہ کم بچے بھی ہیں، جو یا تو اپنے اپنے اہل خانہ کے ساتھ حراستی مراکز میں بند ہیں یا جنہیں حکام نے زبردستی ان کے والدین سے علیحدہ رکھا ہوا ہے۔

Verhaftung von Flüchtlingen an der Grenze USA-Mexiko
میکسیکو اور امریکا کی سرحد پر ایک امریکی بارڈر گارڈ ایک تارک وطن بچی کو اپنے ساتھ لے جاتے ہوئےتصویر: Getty Images/J. Moore

اعداد و شمار 'انتہائی قابل اعتماد‘

اس رپورٹ کی تیاری کے دوران مانفریڈ نوواک کی ٹیم نے جب امریکی حکام سے رابطہ کیا، تو انہوں نے اس بارے میں کسی بھی سوال کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔ محققین کی اس ٹیم نے کہا ہے کہ ان کی طرف سے پیش کردہ یہ اعداد و شمار مختلف ذرائع سے حاصل کر کے جمع کیے گئے اور 'انتہائی قابل اعتماد‘ ہیں۔

نوواک نے نیوز ایجنسی اے ایف پی کو مزید بتایا، ''یہ تعداد، ایک لاکھ تین ہزار، بہت ہی محتاط اندازوں کا نتیجہ ہے۔‘‘ ان کے مطابق اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہو سکتی ہے۔

نوواک نے یہ رپورٹ جاری کرتے ہوئے سوئٹزرلینڈ کے شہر جنیوا میں صحافیوں کو بتایا، ''ترک وطن سے متعلقہ معاملات میں بچوں کو حراستی مراکز میں رکھنا کبھی بھی ایسے بچوں کے مفاد میں نہیں ہوتا۔ اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ ایسا اس وقت بھی کیا جاتا ہے، جس دیگر متبادل راستے موجود ہوتے ہیں۔‘‘

ٹرمپ انتظامیہ کی مذمت

اس رپورٹ کے مطابق امریکا میں زیر حراست نابالغ تارکین وطن کی تعداد دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ شماریاتی حوالے سے امریکا میں مجموعی طور پر ہر ایک لاکھ بچوں میں سے 60 ایسے ہوتے ہیں، جنہیں ترک وطن اور ساتھ ہی دیگر معاملات کی وجہ سے حراست میں رکھا جاتا ہے۔ اس کے برعکس کینیڈا میں یہی تناسب 15 بچے فی ایک لاکھ بنتا ہے جبکہ مغربی یورپ میں یہی شرح صرف پانچ بچے فی ایک لاکھ بنتی ہے۔

عالمی ادارے کے ماہرین کے مطابق امریکا آج بھی دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جس نے اقوام متحدہ کے بچوں کے حقوق سے متعلق کنوینشن پر دستخط نہیں کیے۔ یہ عالمی کنوینشن 1989ء میں منظور کیا گیا تھا۔

کنوینشن کے تحت بچوں کی حراست ممنوع

مانفریڈ نوواک کے مطابق اقوام متحدہ کا بچوں کے حقوق کا عالمی کنوینشن نابالغ افراد، خاص کر چھوٹے بچوں کو جبراﹰ ان کے والدین سے علیحدہ رکھنے کی ممانعت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا، ''میں تو اسے ایسے بچوں اور ان کے والدین دونوں کے ساتھ غیر انسانی رویے کا نام ہی دے سکتا ہوں۔‘‘

نوواک کے بقول امریکا میں ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی اس لیے قابل مذمت ہے کہ وہ امریکا اور میکسیکو کی سرحد پر ایسے تارکین وطن بچوں کو ان کے والدین سے جبراﹰ علیحدہ کر دینے اور پھر حراست میں رکھنے کے ساتھ اس عالمی کنوینشن کی خلاف ورزی کی مرتکب ہو رہی ہے۔ واشنگٹن میں امریکی انتظامیہ نے اس رپورٹ کے اجراء کے بعد بھی اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

عراق اور شام میں 29 ہزار بچے زیر حراست

جہاں تک دیگر ممالک میں نابالغ تارکین وطن بچوں کے زیر حراست رکھے جانے کا تعلق ہے، تو ایسا سب سے زیادہ مشرق وسطیٰ میں شام اور عراق جیسی ریاستوں میں کیا جا رہا ہے۔

عالمی ادارے کے ماہرین کے مطابق ان دونوں عرب ممالک میں زیر حراست تارکین وطن بچوں کی تعداد کم از کم بھی 29 ہزار بنتی ہے، جن کی اکثریت کا تعلق دہشت گرد تنظیم 'اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش کے جنگجوؤں کے خاندانوں سے ہے۔ ایسے بچوں میں کئی یورپی ممالک کے بچے بھی شامل ہیں لیکن ان میں سب سے زیادہ تعداد فرانسیسی شہریوں کی ہے۔

م م / ع ا (اے ایف پی، اے پی، ڈی پی اے، روئٹرز)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں