بنگلہ دیش: فرار ہونے کے بعد شیخ حسینہ کا پہلا عوامی خطاب
5 دسمبر 2024بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اگست میں اقتدار چھوڑ کر بھارت فرار ہونے کے بعد بدھ کے روز پہلی بار نیویارک میں اپنی پارٹی کے کارکنان کی ایک تقریب سے خطاب کیا اور عبوری حکومت کے سربراہ محمد یونس پر سخت حملہ کرتے ہوئے ان پر "نسل کشی" اور ہندوؤں سمیت دیگر اقلیتوں کے تحفظ میں ناکام ہونے کا الزام لگایا۔
بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان بڑھتی کشیدگی
انہوں نے کہا، "آج مجھ پر نسل کشی کا الزام لگایا جا رہا ہے۔ تاہم حقیقت میں یونس باریک بینی سے تیار کردہ ایک منصوبے کے تحت نسل کشی میں ملوث رہے ہیں۔ اس نسل کشی کے پیچھے۔۔۔۔ طلباء کے رابطہ کار اور یونس ماسٹر مائنڈز ہیں۔"
اگست میں حکومت مخالف زبردست مظاہروں کے بعد حسینہ استعفیٰ دینے کے بعد بھارت فرار ہو کر پہنچی تھیں، جس کے بعد سے ان کا یہ پہلا خطاب تھا اور اس میں انہوں نے بنگلہ دیش کی مجموعی صورتحال پر تبصرہ کیا۔
بھارت میں بنگلہ دیش کے مشن پر حملہ، نئی دہلی کا اظہار افسوس
'استعفی دینے کا بھی وقت نہیں ملا'
شیخ حسینہ کا کہنا تھا کہ "مسلح مظاہرین کا رخ گنا بھابن (وزیر اعظم کی رہائش گاہ) کی طرف تھا۔ اگر سیکورٹی گارڈز گولی چلاتے تو بہت سی جانیں ضائع ہو جاتیں۔ میں نے ان سے کہا کہ گولی نہ چلائیں۔ یہ صرف 25-30 منٹ کی بات تھی اور مجھے وہاں سے جانے پر مجبور کر دیا گیا۔"
شیخ حسینہ اور یونس کے تعلقات طویل عرصے سے کشیدہ رہے ہیں، جنہوں نے بنگلہ دیش کی نگراں حکومت کے سربراہ کو "طاقت کا بھوکا" بتایا اور یونس کے گرامین بینک کے آپریشنز سے متعلق بدعنوانی اور منی لانڈرنگ میں ملوث ہونے کے اپنے سابقہ الزامات کو بھی دہرایا۔
'بھارت اور بنگلہ دیش میں کوئی فرق نہیں'، محبوبہ مفتی
ان کا کہنا تھا، "ہندو، بدھسٹ، عیسائی کسی کو بھی نہیں بخشا گیا۔ گیارہ گرجا گھروں کو تباہ کر دیا گیا، مندروں اور بودھوں کی عبادت گاہوں کو توڑ دیا گیا ہے۔ جب ہندوؤں نے احتجاج کیا تو اسکان لیڈر کو گرفتار کر لیا گیا۔"
شیخ حسینہ نے بھارتی الزامات کی تائید کرتے ہوئے کہا، "اقلیتوں پر یہ ظلم کس لیے؟ ان پر کیوں بے رحمی سے ظلم اور حملہ کیا جا رہا ہے؟ لوگوں کو اب انصاف کا حق بھی نہیں دیا جا رہا ہے۔۔۔ مجھے تو استعفیٰ دینے کا بھی وقت نہیں دیا گیا۔"
بنگلہ دیش میں سب سے زیادہ صحافی رواں برس قتل ہوئے
نئی دہلی اور ڈھاکہ میں کشیدگی
بھارت الزام لگاتا ہے کہ اگست میں حسینہ کی معزولی کے بعد سے بنگلہ دیش میں مذہبی اقلیتوں سمیت حسینہ کے بہت سے حامیوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
محمد یونس کی سربراہی میں عبوری حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے بھارت اور بنگلہ دیش کے تعلقات کشیدہ ہوگئے ہیں۔
بھارت نے گزشتہ ہفتے کہا تھا کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کو تمام اقلیتوں کے تحفظ کی اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے اور اس نے انتہا پسندانہ بیان بازی اور ہندوؤں کے خلاف تشدد کے بڑھتے ہوئے واقعات پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔
بنگلہ دیش: شدت پسندوں کی دھمکیوں کے بعد 'رواداری' میلہ منسوخ
شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے اور ان کے بھارت فرار ہونے کے بعد سے بھارت اور بنگلہ دیش کے درمیان کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔ اگست میں بھارت آنے کے بعد سے شیخ حسینہ دہلی میں مقیم ہیں، حالانکہ بنگلہ دیشی رہنما ان کی حوالگی کا بھارت سے مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
اور نیا تنازع بنگلہ دیش میں ایک ہندو رہنما چنموئے کرشنا داس کی گرفتاری کے بعد شروع ہوا۔ داس کی گرفتاری کے خلاف ایک ہندو شدت پسند تنظیم کے درجنوں کارکنوں نے دو دسمبر کو بھارت کے سرحدی صوبے تریپورہ کے دارالحکومت اگرتلہ میں بنگلہ دیش کے قونصل خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔ قونصل خانے میں توڑ پھوڑ مچانے کے ساتھ ہی بنگلہ دیش کے پرچم کو بھی جلا دیا گیا تھا۔
ڈھاکہ نے اپنے قونصل خانے پر حملے کے بعد اگرتلہ میں ویزا خدمات بند کر دیں اور بنگلہ دیش میں بھارتی ہائی کمشنر کو طلب کر کے اس پر احتجاج درج کرایا ہے۔
ص ز/ ج ا (نیوز ایجنسیاں)