1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بلوچستان: چینی باشندوں کی نقل و حرکت پر تا حکم ثانی پابندی

30 جنوری 2020

پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں کورونا وائرس کے ممکنہ خطرے کے پیش نظر سینکڑوں چینی باشندوں کی نقل و حرکت پر تا حکم ثانی پابندی عائد کردی گئی ہے۔

https://p.dw.com/p/3X3b0
تصویر: DW/A. G. Kakar

گوادر کی بندگارہ اور سونےکے وسیع ذخائر والے ضلع چاغی کے سیندک پروجیکٹ سمیت متعدد منصوبوں پر اس وقت کئی چینی کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ حکام کے مطابق بلوچستان میں چینی کمپنیوں کے نمائندوں، کارکنوں اور ان کی سکیورٹی پر مامور پاکستانی اہلکاروں کی سکریننگ کا عمل بھی شروع کر دیا گیا ہے۔

صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں تعینات محکمہ صحت کے ایک سینئر اہلکار شوکت بلوچ کے مطابق پورے بلوچستان میں کورونا وائرس کے خطرےکے پیش نظر ہائی الرٹ بھی جاری کیا گیا ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''کورونا وائرس کے ممکنہ پھیلاؤ کے حوالے سے بلوچستان سب سے حساس صوبہ ہے۔ اس وقت تین اضلاع گوادر، لسبیلہ اور چاغی میں چینی ملازمین کی کثیر تعداد موجود ہے۔ اس وائرس سے بچاؤ کے لہے صوبے کے تمام ہوائی اڈوں پر محکمہ صحت کے اہلکار تعینات کیے جا چکے ہیں۔ اس کے علاوہ صوبائی حکومت نے طبی مایرین پر مشتمل ایک 14 رکنی خصوصی کمیٹی بھی تشکیل دے دی ہے، جو کورونا وائرس کے حوالے سے ایڈوائزری جاری کرے گی۔‘‘

بلوچستان کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں خصوصی وارڈز

شوکت بلوچ نے بتایا کہ کورونا وائرس کے خطرے کے پیش نظر صوبے کے تمام سرکاری ہسپتالوں میں قرنطینہ وارڈز قائم کیے جا رہے ہیں اور اس ضمن میں غیر معمولی حفاظتی انتظامات کے لیے ایک مؤثر حکمت عملی بھی وضع کر لی گئی ہے۔

Pakistan Corona
تصویر: DW/A. G. Kakar

انہوں نے مزید کہا، ''بلوچستان میں چونکہ چینی ملازمین کی تعداد بہت زیادہ ہے، اس لیے ان کی نقل و حرکت کو محدود کر دیا گیا ہے۔ حکومت ہر وہ قدم اٹھا رہی ہے، جس سے اس خطرناک وائرس سے پیدا ہونے والی ممکنہ صورت حال سے نمٹا جا سکے۔ عوام میں کورونا وائرس سے بچاؤ کی احتیاطی تدابیر کے حوالے سے ایک آگہی مہم بھی شروع کی گئی ہے، تاکہ شہری خود بھی اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر سکیں۔‘‘

گوادر میں اقدامات

گوادر کی بندرگاہ پر تعینات ایک وفاقی محکمےکے ایک سینئر اہلکار نوید ظفر نے بتایا کہ گوادر میں چینی ملازمین کی آمد و رفت اور نقل و حرکت محدود کرنے سے پاک چین اقتصادی راہداری یا سی پیک منصوبے کے کام کے حوالے سے تاحال کوئی منفی اثر نہیں پڑا۔

ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ''یہ بہت حساس معاملہ ہے اور حکومت اس ضمن میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتی۔ یہاں جو چینی ملازمین کام کرتے ہیں، انہیں بتا دیا گیا ہے کہ وہ موجودہ صورتحال میں اپنی نقل و حرکت ہر حوالے سے محدود رکھیں۔ جو چینی ملازمین یہاں مختلف منصوبوں پر کام کر ر ہے تھے لیکن اس وقت چھٹیوں پر واپس چین گئے ہوئے ہیں، انہیں بھی وہیں روک دیا گیا ہے اور انہیں تا حکم ثانی واپس آنے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘‘

Pakistan Corona
تصویر: DW/A. G. Kakar

نوید ظفرکا کہنا تھا کہ گوادر پورٹ اتھارٹی کے چند ملازمین جو حال ہی میں چین سے واپس پاکستان آئے تھے، ان کی بھی کراچی میں اسکریننگ کی گئی تھی۔ انہوں نے بتایا، ''طبی ماہرین کی جو ٹیم ہم نے کورونا وائرس کے حوالے سے تشکیل دی ہے، وہ مختلف زاویوں سے کام کر رہی ہے۔ اب تک جو اقدامات کیے گئے ہیں، وہ ہر حوالے سے جامع ہیں۔ یہاں چینی ملازمین کی موجودگی کی وجہ سے کورونا وائرس کے پھیلنے کا زیادہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اس لیے بلوچستان میں موجود تمام چینی ملازمین کی اسکریننگ حکومت کی اولین ترجیح ہے۔‘‘

پاک چین تجارت پر منفی اثرات

پاکستان میں چینی ملازمین کی ایک کثیر تعداد ضلع چاغی کے نواحی علاقے سیندک میں سونے اور تانبے کے وسیع تر ذخائر سے متعلق منصوبے پر بھی کام کر رہی ہے۔ چند روز پہلے سیندک پروجیکٹ کے ملازمین میں سے دو افراد کے کورونا وائرس سے ممکنہ طور پر متاثر ہونے کا دعویٰ سامنے آیا تھا، تاہم متعلقہ حکام نے اس دعوے کی باقاعدہ تردید کر دی تھی۔ بلوچستان میں اب تک کورونا وائرس کا کوئی ایک بھی کیس رپورٹ نہیں کیا گیا۔

کورونا وائرس کی صرف خدشے سے ہی پاک چین تجارت پر بھی انتہائی منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ بلوچستان کے تاجر چین سے ہر سال اربوں روپے مالیت کا الیکٹرانکس کا سامان، زرعی ادویات، کاسمیٹکس، گارمنٹس اور دیگر اشیاء درآمد کرتے ہیں۔

کورونا وائرس کی وجہ سے قلعہ عبداللہ، کوئٹہ، پشین اور دیگر اضلاع سے تعلق رکھنے والے درجنوں تاجر بھی چین کے مختلف حصوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ چین میں موجود ان تاجروں میں سے ایک غلام ولی بھی ہیں، جو الیکٹرانکس کے کاروبار سے منسلک ہیں اور چین سے الیکٹرانک مصنوعات خریدنے کے لیے وہاں گئے تھے۔

کوئٹہ میں مقیم غلام ولی کے بڑے بھائی غیاث الدین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے بھائی کی گھر واپسی کے لیے ان کا پورا خاندان بہت فکر مند ہے۔ انہوں نے کہا، ''غلام ولی اس وقت اوہان شہر میں ہیں، جہاں کورونا وائرس کا پھیلاؤ بہت تشویش ناک صورت حال کی وجہ بن چکا ہے۔ ہمیں بتایا گیا ہے کہ انہیں صورتحال بہتر ہونے کے بعد ہی پاکستان واپسی کی اجازت دی جا سکتی ہے۔ ہم سب اہل خانہ بہت پریشان ہیں اور امید کرتے کہ پاکستانی حکومت ان کی وطن واپسی کے لیے بھرپور تعاون کرے گے۔‘‘ غیاث الدین کے بقول صرف غلام ولی ہی نہیں، چین کے کئی دیگر حصوں میں بھی بلوچستان سے گئے ہوئے کئی تاجر وہاں پھنس کر رہ گئے ہیں۔

کوئٹہ حکومت کا موقف

حکومت بلوچستان کے ترجمان لیاقت شاہوانی کے بقول صوبے میں موجود چینی ملازمین کی سرگرمیوں کو محدود کرنا صوبائی حکومت کی طرف سے کیے گئے حفاظتی انتظامات کا تسلسل ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا، ''اس وقت ہماری ٹیمیں ہائی الرٹ پر ہیں۔ بلوچستان کے تمام ہوائی اڈوں پر کسی بھی وقت آنے والے ہر مسافر کی سکریننگ کی جا رہی ہے۔ اب تک یہاں کورونا وائرس کا کوئی کیس رپورٹ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی مشتبہ مریض کو کسی بھی ہسپتال میں لایا گیا ہے۔ چینی ملازمین کی آجر کمپنیاں بھی حفاظتی اقدامات کر رہی ہیں۔ کئی کمپنیوں نے اپنے ملازمین کے لیے اس حوالے سے خصوصی ایڈوائزری بھی جاری کی ہے۔‘‘

لیاقت شاہوانی کا کہنا تھا کہ کوئٹہ میں فاطمہ جناح ٹی بی سینیٹوریم ہسپتال میں کورونا وائرس کے ممکنہ مریضوں کے علاج معالجے کے لیے ابھی سے ایک خصوصی وارڈ بھی قائم کر دیا گیا ہے، جہاں چوبیس گھنٹے ڈاکٹرز ڈیوٹی پر موجود ہیں۔

ادھر پاکستانی دفتر خارجہ کی ترجمان عائشہ فاروقی نے آج جمعرات تیس جنوری کے روز ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان چینی حکومت کے ساتھ رابطے میں ہے اور چین میں تمام پاکستانی شہریوں کا ہر حوالے سے خیال رکھا جا رہا ہے۔

ترجمان نے یہ بھی کہا کہ چین میں موجود تمام پاکستان طلبہ کی رجسٹریشن کو بھی یقینی بنایا جا رہا ہے اور وہاں جو پاکستانی ڈیٹا بیس میں شامل نہیں، انہیں بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے سے رابطے کے لیے کہا جا چکا ہے۔

کورونا وائرس: دوا ساز کمپنیاں حل کی تلاش میں

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں