1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بریسٹ فیڈنگ یا ڈبے کا دودھ: بچے کے لیے کیا فائدہ مند؟

11 مئی 2024

بریسٹ فیڈنگ یا ماں کا بچے کو اپنا دودھ پلانا ایک قدرتی عمل ہے، جو نہ صرف بہت کم عمر بچوں کی ابتدائی غذائی ضروریات پوری کرتا ہے بلکہ زچہ اور بچہ دونوں کو صحت مند رکھنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔

https://p.dw.com/p/4ffWo
Pakistan Mutter und Kind im Krankenhaus
تصویر: Iqra Gilani

بچے کی پیدائش کے بعد کے پہلے چند دنوں میں ماں کی چھاتیوں میں جو دودھ آتا ہے، وہ خاص طور سے غذائیت سے بھرپور تو ہوتا ہی ہے، لیکن ساتھ ہی نومولود بچے کی جسمانی قوت مدافعت بھی بڑھاتا ہے اور اس کے معدے میں مفید بیکٹیریا کی نشوونما کو فروغ بھی دیتا ہے۔

پاکستان میں زندہ پیدا ہونے والے ہر ایک ہزار بچوں میں سے اکتالیس کا کچھ ہی عرصے میں انتقال ہو جاتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان میں اپنی عمر کے پہلے پانچ برسوں کے دوران وفات پا جانے والے بچوں کی شرح بھی بہت زیادہ ہے۔

ماہرین کے مطابق پاکستان میں خواتین میں نومولود بچوں کو اپنا دودھ پلانے کی شرح میں اضافہ کر کے ہر سال پانچ برس سے کم کی عمر میں انتقال کر جانے والے بچوں میں سے آٹھ لاکھ بیس ہزار بچوں کی زندگیاں بچائی جا سکتی ہیں۔ اسی مقصد کے تحت گزشتہ برس ملک میں پروٹیکشن اینڈ پروموشن آف بریسٹ  فیڈنگ اینڈ چائلڈ نیوٹریشن ایکٹ 2023 منظور کیا گیا تھا، جس کے ذریعے چھتیس ماہ تک کی عمر کے بچوں اور چھوٹے بچوں کے لیے محفوظ اور مناسب غذائیت کو یقینی بنانا مقصود تھا۔

عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایسے شیر خوار بچوں میں اموات کی شرح کم ہوتی ہے، جو اپنی ماؤں کا دودھ پیتے ہیں۔ اسی لیے اس عالمی ادارے کی طرف سے زیادہ عوامی آگہی کے لیے دنیا بھر میں بریسٹ فیڈنگ کے حق میں سیمینار اور ورکشاپس کا اہتمام کیا جاتا ہے، کیونکہ یوں خواتین میں چھاتی کے سرطان کے واقعات اور شیرخوار بچوں میں شرح اموات دونوں میں کمی لائی جا سکتی ہے۔

بھارت میں ’بریسٹ مِلک بینک‘

یہ بات مصدقہ ہے کہ مائیں بچوں کو اپنا دودھ پلائیں، تو یہ عمل دونوں ہی کے لیے بہت سے طبی فائدوں کا ضامن ہوتا ہے۔ لیکن اس حقیقت کے باوجود پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے شہری علاقوں میں بچوں کو ڈبے کا دودھ یا فارمولا ملک پلانے کا بڑھتا ہوا رجحان دکھائی دیتا ہے۔

لیکن ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے جن خواتین سے گفتگو کی، ان میں اسلام آباد کی رہائشی اور ایک غیر سرکاری بینک میں ملازمت کرنے والی ستائیس سالہ وردہ گل بھی شامل تھیں۔ انہوں نے بتایا، ''میری چھ ماہ کی ایک بیٹی ہے۔ میرے کام کے اوقات صبح نو بجے سے شام پانچ بچے تک ہیں۔ گھر لوٹتے ہوئے ساڑھے چھ سات بج جاتے ہیں۔ اس لیے میں اپنی بیٹی کو بریسٹ فیڈ نہیں کر سکتی۔ ایسے میں میرے لیے تو بچوں کا فارمولا ملک کسی نعمت سے کم نہیں۔‘‘

Pakistan Junge Mutter mit Baby
اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن کی پینتیس سالہ رہائشی فریحہ اخترتصویر: privat

اسی بارے میں اسلام آباد کے سیکٹر جی نائن کی پینتیس سالہ رہائشی فریحہ اختر نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کے دو بچے ہیں۔ چار سال کا ایک بیٹا اور ایک سال کی ایک بیٹی، اور انہوں نے دونوں کو ہی ڈبے کا  دودھ پلایا۔ ان کے مطابق ڈبے کا دودھ ماں کے دودھ کے متبادل نہیں ہو سکتا، مگر ان کی ایک مجبوری تھی۔ فریحہ اختر کے بقول، ''ایک تو قدرتی طور پر میری فیڈ کم تھی، جس سے بچے کی غذائی ضروریات پوری نہیں ہوتی تھیں اور میرا بچہ بھوکا رہتا اور اکثر روتا تھا۔ میں گھروں میں کام کرتی ہوں، اس وجہ سے بھی دیر تک گھر سے باہر رہنا پڑتا ہے۔ ان حالات میں ڈاکٹر کے مشورے سے میں نے بچے کو ڈبے کا دودھ پلانا شروع کیا تھا۔‘‘

پاکستانی دارالحکومت کے علاقے بحریہ ٹاؤن کی رہائشی اقرا گیلانی کی عمر ستائیس برس ہے اور وہ ایک گھریلو خاتون ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ ان کی پہلی بیٹی ابھی ایک سال کی ہوئی ہی تھی کہ وہ دوبارہ حاملہ ہو گئیں۔ بڑی بیٹی ابھی دو سال کی بھی نہیں ہوئی تھی کہ چھوٹی بیٹی بھی پیدا ہو گئی۔

اقرا گیلانی نے کہا، ''میں اپنی دونوں بیٹیوں کو اپنا  دودھ پلاؤں گی، یہ فیصلہ میرا اور میرے شوہر کا متفقہ فیصلہ تھا۔ ہم اپنی اولاد کی صحت پر کوئی سمجھوتہ نہیں کر سکتے تھے۔ فارمولا ملک کے تو ہر ڈبے پر بھی لکھا ہوتا ہے کہ ماں کا دودھ بچے کے لیے بہترین غذا ہے۔ اس کے باوجود میری کئی سہلیاں اپنے بچوں کو بریسٹ فیڈنگ نہیں کرتیں۔ صرف شدید مہنگائی ہی کو دیکھا جائے تو بھی مدر فیڈنگ میں بڑی بچت بھی ہے اور بچے کی صحت کی ضمانت بھی۔ ڈاکٹر کہتے ہیں کہ ماں کا دودھ پینے والے بچوں کا آئی کیو لیول دوسرے بچوں کی نسبت کافی ہائی ہوتا ہے۔‘‘ اس جوان پاکستانی ماں نے اپنی بات مکمل کرتے ہوئے کہا، ''انسان اگر سمجھ جائے تو بچے کے لیے ماں کے دودھ کے فائدے ہی فائدے ہیں اور نقصان کوئی بھی نہیں۔‘‘

پاکستان کی بہت سی خواتین کئی مختلف وجوہات کی بنا پر اپنے بچوں کو فارمولا دودھ پلانے کے حق میں بھی ہیں۔ اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے راولپنڈی کی رہائشی اور تین بچوں کی ماں، بتیس سالہ سحرش بتول نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے شروع سے ہی بریسٹ فیڈنگ پسند نہیں تھی، کچھ خدشہ اس وجہ سے اپنے جسم کے ڈی شیپ ہو جانے کا بھی تھا، اسی لیے میں نے اپنے تینوں بچوں کو فارمولا دودھ ہی دیا۔ خشک  دودھ کے اپنے مسائل ہوتے ہیں، جیسے راتوں کو اٹھ کر بار بار فیڈر بنانا۔ مالی سطح پر بچوں کے فارمولا دودھ اور پیپرز وغیرہ کے فیملی بجٹ پر بھی اثرات تو پڑتے ہیں۔ اس کے باوجود مجھے تو بریسٹ فیڈنگ کے مقابلے میں پاؤڈر ملک بہتر ہی لگا۔‘‘

Pakistan Dr Farhat Arshad
اسلام آباد کی ایک معروف ماہر امراض زچہ بچہ ڈاکٹر فرحت ارشدتصویر: privat

ڈاکٹر فرحت ارشد اسلام آباد کی ایک معروف ماہر امراض زچہ بچہ ہیں، جو ماضی میں ہولی فیملی ہسپتال کے شعبہ گائناکالوجی کی سربراہ تھیں اور اب لائف کیئر ہسپتال میں پریکٹس کرنے کے علاوہ اپنا ایک نجی کلینک بھی چلاتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کے پاس آنے والی قریب نوے  فیصد مائیں اپنے شیرخوار بچوں کو مدر فیڈنگ کرانے کی بجائے انہیں فارمولا دودھ ہی پلاتی ہیں۔ ایسی ماؤں کا کہنا اکثر یہ ہوتا ہے کہ ان کی مدر فیڈ ناکافی تھی، اس لیے بچے کو ڈبے کا دودھ پلانے کا فیصلہ کرنا پڑا۔

ڈاکٹر فرحت ارشد کے بقول، ''میرے خیال میں ایسی مائیں مدر فیڈ  کے درست طریقہ کار سے پوری طرح واقف ہی نہیں ہوتیں۔ ماں کی چھاتیوں میں دودھ کی مقدار ہمیشہ بچے کی ضرورت کے مطابق ہوتی ہے۔ مگر آج کل کی مائیں کوشش ہی نہیں کرتیں اور اپنی سہولت کے لیے بچے کو پاؤڈر ملک پلانا شروع کر دیتی ہیں۔ اس کا نقصان یہ ہے کہ بچے کی قوت مدافعت کم ہو جاتی ہے اور وہ آئے دن نظام ہضم کی بیماریوں، اسہال، الرجی اور ایسے ہی دیگر امراض کا شکار رہتا ہے۔‘‘

طبی اور نفسیاتی فوائد گنواتے ہوئے ڈاکٹر فرحت ارشد نے زور دے کر کہا کہ بریسٹ فیڈنگ یا مدر فیڈنگ خود  ماں  کی اپنی صحت کے لیے بھی ایک بہترین عمل ہے۔ انہوں نے کہا، ''دوران حمل اور پھر نومولود بچے کی دیکھ بھال کے دوران ماں جس ذہنی دباؤ سے گزرتی ہے، مدر فیڈنگ نہ صرف اس دباؤ کو کم کرتی ہے بلکہ اس کی وجہ سے رحم مادر کے سکڑنے اور خون بہنے میں کمی کے ساتھ زچگی کے بعد صحت یابی میں بھی مدد ملتی ہے۔ ماں کے دودھ میں پری بائیوٹکس اور پرو بائیوٹکس بھی ہوتی ہیں، جو بچے کے نظام انہضام کے لیے مفید ہوتی ہیں اور اس کی جسمانی مدافعت بڑھتی ہے۔ مزید یہ کہ ماں کے لیے اس وجہ سے چھاتی اور رحم مادر کے کینسر، ٹائپ ٹو ذیابیطس اور بعد از پیدائش ڈپریشن  کے خطرات بھی کم ہو جاتے ہیں۔‘‘
ڈاکٹر فرحت ارشد نے بتایا کہ پاکستان میں صرف 18 فیصد مائیں ایسی ہیں، جو خاص طور پر چھ ماہ تک اپنے بچےکو اپنا دودھ پلاتی ہیں۔ ان کے بقول،  ''ماں اور بچے کی صحت کے حوالے سے یہ بہت اہم مسئلہ ہے، جسے ہیلتھ ورکرز اور ڈاکٹروں کے تعا‍ون اور کسی بھی خاندان کے افراد کی سوچ میں باہمی ہم آہنگی سے اور بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے حل کیا جا سکتا ہے اور کیا جانا چاہیے۔‘‘