1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ملائیشین مائیں اپنا دودھ جما کر بچوں کو بھیجنے پر مجبور

15 مئی 2020

اپنی جاب برقرار رکھنے کی خواہشمند سینکڑوں ملائیشین مائیں اپنی فیملی سے کٹ گئیں اور اپنے نو زائیدہ بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے محروم ہو گئیں۔

https://p.dw.com/p/3cHf6
Russland Moskau Muttermilchbank
تصویر: picture-alliance/dpa/TASS/S. Bobylev

ملائیشیا میں مارچ کے وسط سے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے شہریوں کے بیرون ملک سفر پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اپنی جاب برقرار رکھنے کی خواہشمند سینکڑوں ملائیشین مائیں اپنی فیملی سے کٹ گئیں اور اپنے نو زائیدہ بچوں کو اپنا دودھ پلانے سے محروم ہو گئیں۔

رواں سال کورونا وبا پھوٹنے سے قبل ملائیشیا کی ایک اکاؤنٹنٹ جزیرل سی اپنی جاب کے سلسلے میں مسلسل اپنے ملک کے جنوبی جزیرے جوہر اور پڑوسی ملک سنگاپور کے درمیان محو سفر رہتی تھیں۔ ہفتے میں ایک بار وہ اپنے والدین اور اپنے سات ماہ کے بچے سے ملنے اپنے گھر جاتی تھیں۔

مارچ کے وسط سے کورونا وائرس کی وبا پھیلنا شروع ہوئی تو جزیرل سی اور ان جیسی سینکڑوں نوکری پیشہ خواتین سفری پابندی عائد ہونے کے سبب اپنے خاندان اور بچوں سے کٹ کر رہ گئیں اور نتیجہ یہ ہوا کہ ان میں سے جن خواتین کے نو زائیدہ بچے ہیں وہ انہیں اپنا دودھ نہیں پلا سکتی تھیں۔ اکاؤنٹنٹ جزیرل سی نے بتایا کہ خواتین نے سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ قائم کیا، چندہ  اکٹھا کر کے اپنی چھاتی کے منجمد دودھ کو شپ کے ذریعے اپنے شیر خوار بچوں کو بھیجنے کا بندوبست کیا۔

Singapur Mütter aus Malaysia schicken gefrorene Muttermilch nach Hause
سنگاپور میں ایک ملائیشین ماں اپنا دودھ جما کر کرکے اپنے بچے کے لیے بھیج رہی ہے۔ تصویر: Reuters/E. Su

ضرورت ایجاد کی ماں

خبر رساں ادارے روئٹرز کو یہ تفصیلات بتاتے ہوئے 32 سالہ اکاؤنٹنٹ جزیرل سی نے کہا،'' ہم نے تمام ماؤں سے مدد حاصل کی، چندہ اکٹھا کیا، اپنے اپنے دودھ کو جمایا اور انتہائی کفایت کے ساتھ اس رقم کو خرچ کیا کیونکہ بچوں تک اپنا دودھ  بھجوانا کافی مہنگا پڑتا ہے۔‘‘

جزیرل سی کی والدہ )وائی لین موئے( جوہر بارو شہر میں رہتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں،''مجھے یہ بات بہت پسند ہے کہ بچی اپنی ماں کا دودھ پی رہی ہے، کیونکہ بچے کے مدافعتی نظام کے لیے ماں کا دودھ پینا سب سے بہتر ہے۔ اس طرح بچی کی دیکھ بھال کرنا میرے لیے بھی آسان ہے۔‘‘

ایک اندازے کے مطابق پچاس لاکھ ملائیشین سنگاپور میں رہتے اور کام کرتے ہیں اور ہزاروں افراد اس دولت مند شہری ریاست کا باقاعدگی سے سفر کرتے ہیں۔ گرچہ ملائیشیا نے اپنے شہریوں کو وطن لوٹنے کی اجازت اس شرط پہ دی کہ وہ ملک واپسی پر دو ہفتے قرنطینہ میں رہیں گے لیکن سنگاپور میں رہنے والے بہت سے ملائیشین باشندے وطن واپسی سے گریز کر رہے ہیں۔ انہیں ایک تو کورونا وائرس سے خوف آ رہا ہے دوسرے یہ خطرہ ہے کہ ان کی نوکریاں چلی جائیں گی۔

Singapur Mütter aus Malaysia schicken gefrorene Muttermilch nach Hause
کورونا وائرس نے کام کرنے والی ماؤں کو اپنے بچوں سے دور کر دیا ہے۔تصویر: Reuters/E. Su

دریں اثناء سنگاپور نے بھی مارچ کے اواخر سے اپنے ہاں قرنطینہ کے وزیٹرز پر پابندی عائد کر دی تھی۔ جزیرل سی کہتی ہیں،''اگر میں ابھی ملائیشیا گئی تو ممکن ہے کہ میں اپنے ساتھ کورونا وائرس واپس لے آؤں۔ میں خود کو سمجھاتی ہوں کہ اپنے مستقبل کے لیے فی الحال صبر سے کام لینا میرے لیے بہتر ہے۔‘‘

اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ

ریاست جوہر کے ایک قانون سازاینڈریو چن کاہ انج نے کہا،''سنگاپور سے اب تک چار کھیپ میں 200 ماؤں کا سات ہزار کلوگرام دودھ جوہر ریاست پہنچ چکا ہے۔ اس طرح کی شپمنٹ اس سے پہلے کبھی نہیں ہوئی۔‘‘ قانون ساز کا مزید کہنا تھا،''میں نے کسٹم، امیگریشن اور قرنطینہ، تمام محکموں کے حکام کے ساتھ بات کی، انہوں نے اس سے قبل کبھی ایسی کوئی سروس نہیں دی۔ نہ ہی محکمہ ذراعت اور وزارت صحت نے پہلے کبھی کوئی ایسا کام کیا تھا۔ یہ سب ان ماؤں کی مدد کرنا چاہتے ہیں۔‘‘

Singapur Mütter aus Malaysia schicken gefrorene Muttermilch nach Hause
سنگا پور میں کام کرنے والی ماؤں کا جما ہوا دودھ ملائیشیا میں اُن کے شیر خوار بچوں کے لیے شپ کیا جا رہا ہے۔تصویر: Reuters/E. Su

 سنگاپور 26 ہزار کورونا انفیکشن کیسز کے ساتھ پورے ایشیا میں سب سے زیادہ کیسز والے ممالک میں شامل ہے۔ یہ کیسز زیادہ تر سنگاپور کے تارکین وطن کارکنوں کے تنگ اور آلودہ ہوسٹلز میں ریکارڈ کیے گئے ہیں۔ جبکہ جنوب مشرقی ایشیا میں ملائیشیا وہ ملک ہے جہاں اپریل کے وسط تک کورونا انفیکشن کیسز سب سے زیادہ ریکارڈ کیے گئے تاہم جب سے پابندیاں عائد کی گئیں تب سے کیسز میں اضافے کی شرح میں آہستہ آہستہ کمی آنا شروع ہوئی۔ اب تک یہاں 6 ہزار 8 سو کیسز کی اطلاع ہے۔

ک م / ع ا (روئٹرز، اے ایف پی)

 

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں