امریکی معاشرے میں چڑیلیں’’اِن‘‘
22 جولائی 2010گمان کیا جاتا ہے کہ امریکی شہر نیویارک میں سن 1892 میں ایک ریل گاڑی کے حادثے میں ہلاک ہونے والی خاتون آج بھی شہر کے بعض حصوں میں چڑیل کے روپ میں گھومتی پھرتی ہے۔ اس خاتون کا نام سیرگون او ڈیلی ہے۔ اس کو انسانی خون مرغوب ہے اور سورج کی روشنی سے نفرت ہے۔ رات کی تاریکی اس کو من پسند ہے۔ اس کا قصہ خاصا مقبول ہے۔ اگر آپ نیو یارک جا رہے ہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس ویمپائر سے آپ کی ملاقات بھی ہو جائے۔
آج کل امریکہ میں بھوت پریت اور چڑیلوں کے ملبوسات زیب تن کر کے ماہانہ بنیادوں پر ڈانس نائٹس بھی بہت مقبول ہو رہی ہیں۔ اس مناسبت سے کئی علاقوں میں چڑیلوں اور ماورائی مخلوق کے لباس کی خصوصی ڈریس شاپس کھل چکی ہیں۔ اس ماہ کی 31 تاریخ کو امریکی ریاست پینسیلوینیا کے شہر فلاڈیلفیا میں ایسی ہی ایک ماہانہ ڈانس نائٹ ہے۔ ہر ماہ ڈانس نائٹ کے لئے نئے شہر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔ اس طرح ہر ماہ کسی نہ کسی بڑے امریکی شہر میں سینکڑوں ’چڑیلیں‘ ڈانس نائٹ میں شریک ہوتی ہیں۔
امریکی ادیبہ سٹیفنی میئر کے ’ ٹوائلائٹ‘ ناولوں کے شائقین سے لے کر 1970 میں چھپنے والے این رائس کے ناول ’ویمپائر ڈائریز‘ کے پڑھنے والے اب افسانوی اور ماورائی مخلوق میں بہت زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ امریکی ٹیلی ویژن پر آج کل انتہائی مقبول سیریل بھی ویمپائر کلچر سے متعلق ہے۔ اس کا نام ’ٹرو بلڈ‘ (True Blood) ہے۔
کئی خواتین اس قسم کے لٹریچر کو پڑھنے کے بعد خود کو ویمپائر یا چڑیل کلچر کا حصہ تصور کرتی ہیں۔ ایسی ہی اوپر بیان کی گئی سیری گون او ڈیلی ہے۔ اس جیسی ایک اور چڑیل ژواکوئن لاٹینا ہے۔ اس کے پاسپورٹ پر عمر تو 35 سال ہے لیکن وہ خود کو 2744 سال کی سمجھتی ہے۔ ژواکوئن بچپن سے ہی چڑیلوں اور بھوت پریت کے تصور رکھتی رہی ہے۔ اس کے خیال میں اس جیسی ویمپائرز کے لئے نیو یارک ایک بہتر شہر ہے۔ ژواکوئن اور سیریی گون او ڈیلی جیسی اور بہت سی خواتین فرضی چڑیلیں اس مقبول ہوتے عجیب و غریب کلچر کی نمائندہ کردار ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل