1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکہ میں سینکٹروں مہاجرین بچے اب بھی اپنے خاندانوں سے الگ

3 فروری 2023

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ میکسیکو سرحد پر ہزاروں تارکین وطن خاندان منقسم ہو گئے تھے۔ ایک خصوصی ٹاسک فورس بچوں کو ان کے والدین سے دوبارہ ملانے کی کوشش کررہا ہے لیکن اس میں کافی وقت لگے گا۔

https://p.dw.com/p/4N3H4
USA | Mexiko | Trennung von Eltern und Kindern an der US Grenze
تصویر: GUILLERMO ARIAS/AFP/Getty Images

ٹرمپ حکومت کی ایک پالیسی کی وجہ سے امریکہ میکسیکو سرحد پر اپنے خاندان سے الگ ہوجانے والے تقریباً 1000 تارکین وطن بچے اب بھی اپنے خاندانوں سے نہیں مل سکے ہیں۔

یہ اعداد و شمار جمعرات کے روز امریکی محکمہ ہوم لینڈ سکیورٹی (ڈی ایچ ایس) کی طرف سے جاری کیے گئے ہیں۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے سابقہ ٹرمپ انتظامیہ کی پالیسی کی وجہ سے اپنے خاندانوں سے الگ ہوجانے والے تمام بچوں کو دوبارہ ملانے کا وعدہ کیا تھا۔ جنوری 2021 میں عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد انہوں نے اس کام کے لیے ایک ٹاسک فورس تشکیل  دیا تھا۔

ڈی ایچ ایس کا کہنا ہے کہ ٹاسک فورس کے قیام کے بعد سے دو برسوں میں 600 سے زائد بچوں کو ان کے خاندان سے دوبارہ ملا دیا گیا ہے۔ لیکن تقریباً 998 بچے اب بھی اپنے خاندان والوں سے الگ رہ رہے ہیں۔ اس نے مزید کہا کہ ان بچوں میں سے 148 کو دوبارہ ملانے کا عمل اگلے مرحلے میں ہے۔

امریکا میکسیکو سرحد پر ’تارکین وطن کا سیلاب‘

ہوم لینڈ سکیورٹی کے سکریٹری الیجاندرو مائروکاس نے ایک بیان میں کہا،"ہم سمجھے ہیں کہ ہمارا اہم کام ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔" انہوں نے مزید کہا،"ہم ان دوسرے خاندانوں کو دوبارہ ملانے کے لیے مسلسل کام کرنے کے اپنے عزم کا اعادہ کرتے ہیں جو سابقہ ظالمانہ اور غیر انسانی پالیسی کی وجہ سے متاثر ہوئے ہیں۔"

سیاسی اور مذہبی رہنماوں نے بچوں کو ان کے رشتہ داروں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کی بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کی اور اسے غیر انسانی قرار دیا
سیاسی اور مذہبی رہنماوں نے بچوں کو ان کے رشتہ داروں سے علیحدہ کرنے کی پالیسی کی بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کی اور اسے غیر انسانی قرار دیاتصویر: Christian Torres/AA/picture alliance

ٹرمپ کا 'زیرو ٹالیرنس' رویہ

ہزاروں تارکین وطن خاندان، جن میں بیشتر کا تعلق وسطی امریکہ سے تھا، سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی "زیرو ٹالیرنس" پالیسی کی وجہ سے ایک دوسرے سے بچھڑ گئے۔

سن 2018 کے موسم بہار میں نافذ کی گئی یہ پالیسی ایسے تمام افراد کے خلاف مقدمہ چلانے کی کوشش ہے جو غیر قانونی طورپر سرحد عبور کر کے امریکہ میں داخل ہوئے۔ چونکہ بچوں کو ان کے والدین کے ساتھ یا خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ جیل میں نہیں ڈالا جاسکتا، اس لیے انہیں ان کے رشتہ داروں سے الگ کر دیا گیا۔ یہ بچے'ہیلتھ اینڈ ہیومن سروسز' کی نگرانی میں ہیں۔

امریکا میں ایک لاکھ تارکین وطن بچے زیر حراست، اقوام متحدہ

سیاسی اور مذہبی رہنماوں نے علیحدہ کرنے کی اس پالیسی کی بڑے پیمانے پر نکتہ چینی کی اور اسے غیر انسانی قرار دیا۔ امریکی سول لبرٹیز یونین (اے سی ایل یو) نے اس کے خلاف کیس دائر کردیا۔  ٹرمپ انتظامیہ نے جون 2018 میں اپنی اس پالیسی پر عمل درآمد روک دیا تھا۔

ٹرمپ کی مہاجرین سے متعلق سخت ترین پالیسی

عدالت نے اے سی ایل یو کے حق میں فیصلہ سنایا۔ جس کے بعد صدر بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے قبل الگ کردیے جانے والے تارکین وطن بچوں کی شناخت اور انہیں اپنے خاندان والوں سے ملانے کا کام شروع کیا گیا۔

بہت سے تارکین وطن کنبوں نے اپنے بچوں کو ان سے الگ کر دینے کے خلاف امریکی حکومت پر معاوضے کے لیے مقدمہ بھی دائر کیا ہے۔

 ج ا/ ص ز (روئٹرز، اے پی)