1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

امریکا سے سکیورٹی معاہدے کی کوئی جلدی نہیں، کرزئی

مقبول ملک18 ستمبر 2013

افغان صدر کرزئی نے کہا ہے کہ انہیں مستقبل میں کابل اور واشنگٹن کے مابین سکیورٹی تعلقات کے حوالے سے امریکا کے ساتھ کسی معاہدے پر دستخط کرنے کی کوئی جلدی نہیں۔ صدر کرزئی نے یہ بات کابل میں ایک یوتھ کانفرنس سے خطاب میں کہی۔

https://p.dw.com/p/19jmv
تصویر: picture-alliance/dpa

صدر کرزئی نے کہا کہ افغان امریکی سکیورٹی معاہدہ طے کرنے کی جلدی امریکا کو ہے افغانستان کو نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’امریکی یہ معاہدہ اس سال مارچ یا اپریل میں طے کر لینا چاہتے تھے۔ اب وہ اس سمجھوتے کو اکتوبر کے آخر تک حتمی شکل دے دینے کے خواہش مند ہیں۔ لیکن ہم یہ چاہتے ہیں کہ ہمارا فیصلہ اچھا ہو اور جلد بازی میں نہ کیا جائے۔ جلدی امریکا کو ہے، ہمیں نہیں۔ ہم بہت پرسکون ہیں۔‘‘

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی رپورٹوں میں لکھا ہے کہ صدر حامد کرزئی کے اس موقف سے امریکا کی 2014ء کے بعد کے لیے کوئی دوطرفہ معاہدہ جلد طے کر لینے کی امیدیں ایک بار پھر دم توڑ گئی ہیں حالانکہ واشنگٹن یہ کہہ چکا ہے کہ اس کی ابھی بھی یہ خواہش ہے کہ کابل کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ اگلے مہینے اکتوبر تک طے پا جائے۔

واشنگٹن حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اگلے مہینے کے آخر تک کابل کے ساتھ سکیورٹی معاہدہ طے کر لینے کی خواہش مند اس لیے ہے کہ 2014ء کے آخر تک افغانستان سے اتحادی فوجی دستے واپس چلے جائیں گے۔ اس تناظر میں واشنگٹن کی کوشش ہے کہ افغانستان میں امریکی اور نیٹو کے فوجی کمانڈروں کو کافی وقت مل جائے تاکہ وہ مکمل انخلاء کے بجائے کچھ فوجی دستے افغانستان ہی میں رکھنے کا فیصلہ سوچ سمجھ کر اور باآسانی کر سکیں۔

NATO-Gipfel in Lissabon Obama Karzai
تصویر: picture-alliance/dpa

افغانستان اور امریکا کے درمیان دوطرفہ سکیورٹی معاہدے سے متعلق بات چیت کا آغاز گزشتہ برس اکتوبر میں ہوا تھا۔ امریکی نقطہ نظر سے یہ معاہدہ اس لیے ضروری ہے کہ اگلے سال کے بعد بھی اگر امریکی فوجی دستے افغانستان میں موجود رہیں گے، تو واشنگٹن کو اس کے لیے دوطرفہ معاہدے کی صورت میں باقاعدہ قانونی بنیادوں کی ضرورت ہو گی۔

دوسری طرف یہ امر بھی واضح ہے کہ اگر افغان امریکی سکیورٹی معاہدہ طے نہیں پایا تو یہ امکان نہ ہونے کے برابر ہے کہ 31 دسمبر 2014ء کے بعد مغربی دفاعی اتحاد نیٹو یا اس کے رکن کسی اتحادی ملک کے فوجی دستے ہندوکش کی اس ریاست میں موجود رہیں گے۔

افغانستان میں کئی حلقوں کا خیال ہے کہ کرزئی حکومت کی طرف سے مستقبل کے لیے امریکا کے ساتھ کوئی بھی سکیورٹی معاہدہ طے کرنے کا مطلب افغانستان کی خود مختاری پر سمجھوتہ ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ حامد کرزئی ایسے کسی معاہدے کے طے پا جانے کی صورت میں خود کو تنقید سے بچانا چاہتے ہیں اور انہوں نے اب تک امریکا کے سامنے جو شرائط رکھی ہیں، واشنگٹن انہیں تسلیم کرنے سے ہچکچاتا ہے۔

حامد کرزئی نے ایک کام یہ بھی کیا ہے کہ انہوں نے اپنی ان شرائط کی کبھی کھل کر وضاحت بھی نہیں کی۔ لیکن وہ جو شرطیں منوانا چاہتے ہیں، ان میں ممکنہ طور پر یہ بھی شامل ہے کہ افغانستان کی قومی سرحدوں کی کسی بھی بیرونی مداخلت کے خلاف حفاظت کی ضمانت دی جانی چاہیے۔ لیکن یہ ایک ایسی شرط ہے جس پر امریکا کا متفق ہونا تقریباﹰ ناممکن ہے۔

صدر کرزئی نے منگل کو کابل میں نوجوانوں کی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ مستقبل کے کسی بھی افغان امریکی سکیورٹی معاہدے کی پہلے افغان عمائدین کی کونسل یا لوئیہ جرگہ کی طرف سے منظوری بھی لازمی ہو گی۔ اس شرط کا مطلب یہ ہے کہ امریکا جس معاہدے تک جلد از جلد پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے، وہ آئندہ کئی ہفتوں تک طے نہیں پا سکے گا کیونکہ لوئیہ جرگہ افغان عمائدین کا ایک ایسا قومی اجلاس ہوتا ہے، جس کے اہتمام کے لیے دنوں کے بجائے ہفتے درکار ہوتے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں