1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغانستان سے تمام دستے نہیں نکالے جائیں گے، امریکا

عاطف توقیر12 جولائی 2013

امریکا نے کہا ہے کہ ایسا امکان کم ہی ہے کہ وہ سن 2014ء کے آخر تک افغانستان سے اپنے تمام تر فوجی دستے نکال لے گا۔ اس بیان کے مطابق امریکا کو افغانستان کے لیے ’زیرو آپشن‘ پر مجبور کیے جانے کا امکان نہیں ہے۔

https://p.dw.com/p/196ZA
تصویر: Reuters

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ افغان صدر حامد کرزئی کو یہ بات سمجھنا ہو گی کہ دونوں ممالک کے درمیان سلامتی معاہدہ انتہائی ضروری ہے تاکہ کچھ امریکی دستے سن 2014 کے بعد بھی افغانستان میں قیام کر سکیں۔

امریکی انتظامیہ کی جانب سے یہ بیان نیویارک ٹائمز کی اس رپورٹ کے ایک روز بعد سامنے آیا ہے، جس میں کہا گیا تھا کہ صدر باراک اوباما سنجیدگی سے غور کر رہے ہیں کہ سن 2014ء میں افغانستان میں تمام تر امریکی فوجی مداخلت ختم کر دی جائے۔ اخباری رپورٹ کے مطابق اس کی وجہ امریکی انتظامیہ اور افغان صدر کرزئی کے درمیان پائے جانے والے اختلافات ہیں۔

قطر میں طالبان کے دفتر کے قیام کے بعد کابل حکومت نے امریکا کے ساتھ اسٹریٹیجک معاہدے کے لیے جاری مذاکرات منسوخ کرنے کا اعلان کر دیا تھا۔ کابل حکومت کا کہنا تھا کہ افغانستان میں مفاہمتی عمل کے لیے امن مذاکرات افغان سرپرستی میں ہونے چاہییں۔ واضح رہے کہ قطر میں طالبان کے دفتر کے قیام کو امریکی حمایت حاصل تھی۔

Pressekonferenz Washington Barack Obama Hamid Karzai
امریکا اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی کشیدگی کسی ممکنہ اسٹریٹیجک معاہدے میں تاخیر کا باعث بنی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

امریکی سینیٹ کی خارجہ امور کی کمیٹی کے سامنے ایک سماعت کے دوران وزارت خارجہ کے خصوصی مندوب برائے افغانستان اور پاکستان جیمز ڈوبِنز نے جمعرات کو اپنے ایک بیان میں کہا، ’کسی معاہدے کے بغیر ہم افغانستان میں قیام نہیں کریں گے۔ مگر ہمیں ایسا نہیں لگتا کہ مذاکرات کا کوئی ایسا نتیجہ نکل سکتا ہے۔‘

انہون نے مزید کہا، ’افغان کا عراق کے ساتھ موازنہ درست نہیں کیوں کہ افغان عوام کو ضرورت ہے کہ ہم وہاں قیام کریں۔ زیادہ تر افغان شہری یہی چاہتے بھی ہیں اور ہم نے ان سے وعدہ کر رکھا ہے۔‘

افغانستان میں اس وقت بھی تقریباﹰ ساٹھ ہزار امریکی فوجی تعینات ہیں۔ مگر اگلے برس کے آغاز تک ان کی تعداد 34 ہزار رہ جائے گی۔ تاہم امریکی انتظامیہ کابل حکومت کے ساتھ ان مذاکرات میں مصروف ہے، جن کے تحت تقریباﹰ آٹھ ہزار فوجی سن 2014 کے بعد بھی افغانستان میں قیام کر سکیں گے۔

دوسری جانب امریکی حکام کا یہ بھی کہنا ہے کہ پینٹاگون اور امریکی فوجی کمانڈروں کی جانب سے بار بار زور دیا جاتا رہا ہے کہ افغانستان میں سن 2014 کے بعد بھی محدود امریکی فوجی موجودگی ضروری ہے تاہم اب تک کسی باقاعدہ معاہدے کے طے نہ پانے کی وجہ سے وہاں ’زیرو آپشن‘ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔