1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان صحافی رحمت اللہ نیک زاد کا قتل

22 دسمبر 2020

افغانستان کے معروف صحافی رحمت اللہ نیک زاد کو ان کے گھر کے پاس ہی گولی مار کر اس وقت ہلاک کر دیا گیا جب وہ قریب کی ایک مسجد کی طرف جا رہے تھے۔ وہ مقامی صحافیوں کی ایک تنظیم کے سربراہ بھی تھے۔

https://p.dw.com/p/3n23W
Afghanistan-Journalist getötet | Rahmatullah Nikzad
تصویر: Rahmat Gul/AP Photo/picture alliance

افغانستان میں صحافی رحمت اللہ نیک زاد کے قتل کی ہر جانب سے شدید الفاظ میں مذمت کی جارہی ہے۔ ملک کے صدر اشرف غنی نے اس کی سخت الفاظ میں مذمت کرتے ہوئے اسے دہشت گردانہ حملہ قرار دیا ہے۔ پیر 21 دسمبر کے روز نیک زاد کو ایک نا معلوم حملہ آور نے اس وقت گولی مار کر قتل کر دیا جب وہ اپنے گھر کے قریب ایک مسجد کی طرف جا رہے تھے۔

مقامی پولیس کے ایک ترجمان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ حملہ آور نے رحمت اللہ نیک زاد کو قتل کرنے کے لیے ایسی بندوق کا استعمال کیا جو سائلینسر سے لیس تھی اور انہیں ان کے گھر کے پاس ہی قتل کر کے فرار ہو گیا۔

رحمت اللہ نیک زاد کا تعلق صوبہ غزنی سے تھا جہاں وہ مقامی صحافیوں کی ایک تنظیم کے صدر بھی تھے۔ افغانستان میں صحافیوں کی ایک تنظیم 'افغان جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی' کے مطابق ایک فری لانس صحافی کی حیثیت سے نیک زاد خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹیڈ پریس اور معروف میڈیا ادراے الجزیرہ کے لیے کام کیا کرتے تھے۔

رحمت اللہ نیک زاد کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ پیشہ ور صحافی کے طور پر وہ اپنی رپورٹ میں ہر رخ کو بیان کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے۔ انہیں امریکا، افغان حکومت اور طالبان سبھی نے متعدد بار گرفتار بھی کیا تھا۔ انہوں نے اپنے پیچھے چھ بچوں کو چھوڑا ہے۔

طالبان نے اس حملے میں ملوث ہونے سے انکار کیا اور ایک بیان میں اسے بزدلانہ حملہ بتایا ہے۔ طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا، ''ہم اس قتل کو ملک کے ایک بڑے نقصان کے طور پر دیکھتے ہیں۔'' صوبہ غزنی کا ایک بڑا علاقہ اب بھی طالبان کے زیر اثر ہے۔

’بھارت کے زیر انتظام کشمیر ميں صحافت مشکل ترين کام ہے‘

افغانستان میں حالیہ مہینوں میں ہونے والے متعدد حملوں کا الزام شدت پسند تنظیم اسلامک اسٹیٹ پر عائد کیے جاتے رہے ہیں۔ ان میں سے بعض حملوں میں صحافیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے۔

افغانستان صحافیوں کے لیے خطرناک ملک

صحافت کی آزادی کے لیے کام کرنے والی عالمی تنظیم 'رپورٹرس ودآؤٹ بارڈرز' نے افغانستان کو صحافیوں کے لیے دنیا کے خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک قرار دے رکھا ہے۔ افغانستان کی 'جرنلسٹ سیفٹی کمیٹی' کا کہنا ہے اس برس اب تک ملک میں کم سے کم سات میڈیا اہلکاروں کو قتل کیا جا چکا ہے، جب کہ پچھلے دو ماہ کے دوران پانچ صحافیوں کو ہلاک کردیا گیا۔

 نومبر کے اوئل سے ہی ہدف بناکر صحافیوں کو قتل کرنے کا جو سلسلہ شروع ہوا اس میں کہیں بم تو کہیں گولیوں سے انہیں نشانہ بنایا گیا۔ اس دوران طلوع نیوز کے میزبان یاما سیواش، ریڈیو آزادی کے رپورٹر الیاس داعی، انعکاس ٹی وی کی اینکر ملالائی میوند اور اریانا نیوز کے میزبان فریدین امینی جیسے صحافیوں کو قتل کیا گیا ہے۔

افغانستان میں امن کے قیام کے لیے گرچہ طالبان قیادت اور حکومت کے درمیان بات چیت جاری ہے تاہم اس کے باوجود حالیہ مہینوں میں خطے میں تشدد میں کمی کے بجائے اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس دوران اہم سیاست دانوں، صحافیوں اور انسانی حقوق کے کارکنان سمیت متعدد اہم شخصیات کو قتل کیا جا چکا ہے۔ فی الوقت دوحہ میں جاری امن بات چیت بھی آئندہ برس کے اوائل تک کے لیے موخر ہے۔

ص ز/ ج ا (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)  

’آپ تک سچ پہنچانےکے ليے ہم ہر خطرہ مول ليں گے‘

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں