1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

افغان حکومتی ارکان پر امریکی دباؤ، کابل کی شکایت

مقبول ملک7 دسمبر 2013

افغان صدر کے ترجمان کے بقول امریکا کابل حکومت میں شامل عناصر پر اس لیے دباؤ ڈال رہا ہے کہ افغان امریکی سکیورٹی معاہدے پر جلد دستخط کر دیے جائیں۔ تاہم ترجمان نے کہا کہ کابل اس بارے میں امریکی دباؤ کے آگے نہیں جھکے گا۔

https://p.dw.com/p/1AUb4
تصویر: Reuters

افغان دارالحکومت سے موصولہ خبر ایجنسی روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق کابل میں حال ہی میں کئی روز تک جاری رہنے کے بعد اختتام کو پہنچنے والے لویہ جرگہ نے نہ صرف کابل کے واشنگٹن کے ساتھ دوطرفہ سکیورٹی معاہدے کی منظوری دے دی تھی بلکہ ساتھ ہی صدر حامد کرزئی سے یہ سفارش بھی کی گئی تھی کہ وہ اس معاہدے پر دستخط کر دیں۔ لیکن صدر کرزئی نے لویہ جرگہ سے اپنے اختتامی خطاب میں واضح طور پر کہہ دیا تھا کہ وہ فی الحال امریکا کے ساتھ اس معاہدے پر دستخط نہیں کریں گے۔

یہ دوطرفہ معاہدہ افغانستان میں 2014ء کے بعد بھی، جب اتحادی فوجی دستے ہندوکش کی اس ریاست سے رخصت ہو چکے ہوں گے، امریکی فوجی دستوں کی افغانستان میں موجودگی اور ان کے ممکنہ اختیارات اور فرائض کے بارے میں ہے۔

اس سلسلے میں افغان صدر حامد کرزئی کے ترجمان ایمل فیضی نے خبر ایجنسی روئٹرز کو ای میل کیے گئے اپنے ایک بیان میں جمعے کی شام کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ کابل حکومت میں شامل مخصوص عناصر کو امریکی دباؤ کا سامنا ہے تاہم اس دباؤ سے کچھ حاصل نہیں ہو سکے گا۔

ایمل فیضی نے کہا، ’’ اگر واشنگٹن میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ کابل میں چند مخصوص حکومتی عناصر صدر کرزئی کو اس بات پر مجبور کر سکیں گے کہ وہ اپنے اوپر دباؤ کے آگے ہتھیار پھینکتے ہوئے امریکا کے ساتھ دوطرفہ سلامتی معاہدے پر دستخط کردیں گے، تو یہ تاثر سراسر ناقص اور غلط ہے۔‘‘

اس بارے میں جب روئٹرز نے وضاحت کے لیے کابل میں امریکی سفارت خانے سے رابطہ کیا تو رابرٹ ہلٹن نامی ترجمان نے افغان صدارتی ترجمان ایمل فیضی کے بیان پر کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے صرف یہی بات دہرائی کہ واشنگٹن کی رائے میں دوطرفہ سکیورٹی معاہدے پر جلد دستخط کر دینا دونوں ملکوں کے مشترکہ مفاد میں ہے۔

Afghanistan Karsai PK in Kabul 18.06.2013
صدر کرزئی سکیورٹی معاہدے پر جلد دستخط کرنے سے انکار کر چکے ہیںتصویر: Shah Marai/AFP/Getty Images

امریکا کو کابل کے ساتھ اس معاہدے کے حتمی طور پر طے پا جانے کی جلدی اس لیے ہے کہ 2014ء کے آخر تک افغانستان سے تمام اتحادی فوجی دستے نکل جائیں گے اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ اگر اس کے فوجی دستے اگلے سال کے بعد بھی افغانستان میں متعین رہیں گے تو امریکا کے پاس ضروری اقدامات کے لیے کافی وقت ہونا چاہیے۔ اس وقت افغانستان متعینہ امریکی فوجیوں کی تعداد 47 ہزار بنتی ہے اور امریکا کی خواہش ہے کہ دوطرفہ سکیورٹی معاہدہ یا BSA طے پا جانے کے بعد وہ 2015ء سے ہندوکش کی اس ریاست میں اپنے قریب آٹھ ہزار تک فوجی متعین رکھے۔

واشنگٹن کی طرف سے یہ بھی کہا جا چکا ہے کہ اگر کابل کے ساتھ یہ معاہدہ طے نہ پا سکا تو امریکا 2014ء کے آخر تک افغانستان سے اپنے تمام فوجی واپس بلا لینے کا فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔ روئٹرز کے مطابق یہ معاہدہ طے نہ پا سکنے کی صورت میں مغربی دنیا کی طرف سے افغانستان کو ملنے والی اربوں ڈالر کی امداد کی فراہمی بھی غیر یقینی ہو جائے گی اور یہ پیش رفت افغانستان کی پہلے ہی سے بدحال معیشت کے لیے انتہائی نقصان دہ ہو گی۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید